Maktaba Wahhabi

122 - 692
حسن رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا:’اِبْنِي ہٰذَا سَیِّدٌ،وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[1] سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اعلان ہوا:’إِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَمِینًا،وَ إِنَّ أَمِینَنَا أَیَّتُہَا الْأُمَّۃُ!أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ‘ ’’ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اے امت کے لوگو!ہمارے امین ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘[2] ٭ ایک سچا مسلمان ان کی برائیوں کے تذکرے سے احتراز کرتا اور ان کے باہمی منازعات و مشاجرات(جنگوں)کے بارے میں گفتگو کرنے سے گریز کرتا اور خاموشی اختیار کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔[3] اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي‘ ’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔‘‘[4] نیز فرمایا:’لَا تَتَّخِذُوہُمْ غَرَضًا بَعْدِي‘ ’’ میرے بعدانھیں(عیب و برائی کا)نشانہ مت بنانا۔‘‘[5] نیز ارشاد ہوا:’مَنْ آذَاہُمْ فَقَدْ آذَانِي،وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اللّٰہَ،وَ مَنْ آذَی اللّٰہَ یُوشِکُ أَنْ یَّأْخُذَہُ‘ ’’جس نے ان(صحابہ رضی اللہ عنہم)کو ایذا دی،اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی،اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ وہ اسے پکڑ لے۔‘‘[6] ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی عزت و احترام ایک مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔علاوہ ازیں ان کی بابت یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ وہ پاک اور ہر طرح کے الزامات سے مبرا ہیں۔اور یہ کہ ان میں افضل خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم ہیں۔نیز قرآنِ پاک میں ارشادِ عالی ہے:﴿النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ﴾ ’’ایمان والوں پر نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کا استحقاق ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہے اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کی بیویاں
Flag Counter