Maktaba Wahhabi

345 - 668
سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے۔ یہ ایک مشہور اور بے اصل کہانی ہے، جسے عرب کے جاہلوں نے مشہور کر رکھا تھا۔ اگر یہ صحیح ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی کے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پہلے خبر ہوتی۔ علاوہ ازیں مشاہدے سے دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی لڑکیاں جب گڑیوں سے کھیلتی ہیں تو ایک دوسری سے لڑتی ہیں ، ایک دوسری کی گڑیوں کو چھین کر اور انھیں پھاڑ کر پاؤں میں ڈال دیتی ہیں اور اوپر سے انھیں روند دیتی ہیں ۔ بر تسلیمِ تصویر ان کی سخت توہین و بے عزتی ہوتی ہے جس سے اسلام کا مقصد پورا ہوتا ہے، کہ جس چیز کی خفیف سی بھی تشبیہ بت کے ساتھ ہو، اس کی سخت بے عزتی کرنی چاہیے۔ اب ہم پنڈت جی کو ان کے سوامی جی کا مناظرہ سناتے ہیں جو انھوں نے بعنوان ’’بت پرستی پرمیشور کے حصول کی سیڑھی نہیں ‘‘ بت پرستی کے ان دلائل کا ذکر کیا ہے، جن سے وہ بت پرستی جائز ثابت کرتا ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل دلیل کا بیان کرتے ہوئے اس کی تردید نہیں کی۔ وہ کہتا ہے کہ کثیف بت کی پرستش کرتا کرتا پھر لطیف پرمیشور کو بھی حاصل کر سکتا ہے، جیسے لڑکیاں گڑیوں کا کھیل تب تک کرتی ہیں جب تک کہ سچے خاوند کو حاصل نہیں کرتیں ۔ اس قسم کے دلائل سے بت پرستی کرنا خراب کام ثابت نہیں ہوتا۔ (ستیارتھ پرکاش ب ۱۱ صفحہ: ۳۰۴) سوامی جی نے بت پرست کی گڑیوں والی دلیل کا اس لیے رد نہیں کیا کہ چھوٹی لڑکیوں کا گڑیوں سے کھیلنا ان کے یہاں معیوب نہیں ۔ علاوہ ازیں پیغمبرِ اسلام کی عادت تھی، بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی علامت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسلمان سے، بلکہ پیاری بیوی سے کوئی کام شریعت کے خلاف دیکھتے تو خدا کے حکم کی سخت پابندی کرتے ہوئے اس غلطی کرنے والے پر ناراضی کا اظہار کرتے، جیسا کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کا بیان ہے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے لیے ایک تکیہ جسے سرہانا بھی کہتے ہیں ، خریدا اور اس میں تصویریں تھیں ۔ پس جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر ٹھہر گئے اور گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ پس حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک پر کراہت، یعنی ناراضی کے آثار کو پہچانا۔ پس عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توبہ کرتی ہوں ، میں نے کیا گناہ کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس تکیے (سرہانے) کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کی: میں نے اس کو خریدا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھیں
Flag Counter