Maktaba Wahhabi

203 - 699
مفہوم کی دوسری احادیث میں نہیں پائے جاتے(جو قائلینِ ستر کے دلائل ہیں)کیونکہ وہ احادیث ایک کلی حکم بتا رہی ہیں اور عام شریعت کا اظہار کرتی ہیں،لہٰذا اس عام پر عمل کرنا ہی اولیٰ و افضل ہے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے ایک ترجمۃ الباب میں جو کہا ہے کہ اگرچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ والی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے،لیکن عمل کے اعتبار سے حدیثِ جرہد رضی اللہ عنہ ہی احوط ہے۔ان کے اس قول سے غالباً ان کی مراد یہی ہے کہ ران کو مقامِ ستر ماننا ہی اولیٰ و بہتر ہے اور بہ قول امام نووی رحمہ اللہ اکثر علما کا یہی مسلک ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث(اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والی اس کی شاہد)کی شرح میں لکھا ہے کہ ران کو مقامِ ستر نہ ماننے والی احادیث کی دلالت،مقامِ ستر ماننے والی احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور پھر اس کی چار وجوہات بیان کی ہیں۔ 1۔ ان احادیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال مبارکہ کو نقل کیا گیا ہے(جبکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ بھی ہوسکتے ہیں)۔ 2۔ وہ احادیث ان صحیح اور عام اقوال کا مقابلہ نہیں کر سکتیں،جن میں ران کو ستر کہا گیا ہے۔ 3۔ صحیح مسلم(اور دوسری کتب)میں(سوائے طحاوی کے)ران اور پنڈلی کے لفظ میں شک اور تردّد واقع ہوا ہے۔ 4۔ ان واقعات میں زیادہ سے زیادہ جو دلالت ہے وہ یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں(ان کا حکم عام نہیں)،کیوںکہ ان میں ایسی کوئی بات نہیں جو اس بات کی دلیل ہو کہ ایسے واقعات میں ہمارے لیے بھی ویسے ہی عمل ضروری ہے۔لہٰذا ہم پر یہی واجب ہے کہ ہم ان اقوال کو اختیار کریں،جو اس بات پر نص ہیں کہ ران مقامِ ستر ہے۔[2] ان دونوں طرح کی احادیث میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن میں سب سے عمدہ تطبیق و موافقت ذکر کی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اصحاب اور دیگر فقہا میں
Flag Counter