Maktaba Wahhabi

204 - 699
سے کتنے ہی حضرات نے ان دونوں طرح کی احادیث میں جمع و موافقت پیدا کرنے کے لیے کہا ہے کہ مقامِ ستر(عورہ)دو طرح کے ہیں: 1۔ ایک مخفّفہ۔ 2۔دوسرے مغلّظہ۔ مغلّظہ تو شرمگاہیں یا جائے پیشاب و پاخانہ ہیں،جبکہ مخفّفہ رانیں ہیں اور رانوں سے نگاہیں جھکانے کے حکم میں اور انھیں کبھی ننگا کر لینے کے جواز میں کوئی منافات و تعارض بھی نہیں،کیونکہ نگاہیں جھکانا اس لیے ہے کہ یہ بھی مقامِ ستر ہیں اور انھیں کبھی ننگا کر لینے کا جواز اس لیے ہے کہ یہ مقامِ ستر سہی،لیکن ستر خفیفہ ہیں۔واللّٰه اعلم[1] علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی اسی جمع و تطبیق کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ دوسرے الفاظ میں بیان کیا ہے،لیکن بظاہر ان کی مراد بھی یہی ہے،چنانچہ وہ اپنی صحیح میں ’’باب ما یذکر في الفخذ‘‘ کے ترجمہ میں ہی فرماتے ہیں: ’’وَحَدِیْثُ أَنَسٍ أَسْنَدُ وَحَدِیْثُ جُرْھَدٍ أَحْوَطُ حَتّٰی یُخْرَجَ مِنْ إِخْتَلَافِھِمْ‘‘[2] ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ والی(ران کو مقامِ ستر قرار دینے پر دلالت کرنے والی)حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے اور حضرت جرہد رضی اللہ عنہ والی(مقامِ ستر ہونے پر دلالت کرنے والی)حدیث عمل کے اعتبار سے زیادہ قرینِ احتیاط ہے،تاکہ علما کے اس اختلاف سے نکلا جا سکے۔‘‘ دورِ حاضر کے معروف عالم و محدّث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ’’تمام المنۃ في التعلیق علی فقہ السنۃ‘‘ میں مسئلہ زیرِ بحث کے متعلق بڑی مفید اور اصولی قسم کی باتیں کی ہیں،جنھیں ذکر کرنے کی طرف فریقِ اول کے دلائل پر مبنی احادیث کی استنادی حیثیت پر سرسری نظر ڈالنے کے آخر میں ہم اشارہ بھی کر آئے ہیں،چنانچہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ران کو مقامِ ستر نہ ماننے والوں کے دلائل ایک تو فعلی احادیث پر مبنی ہیں اور دوسری طرف وہ مُبیحہ(رانوں کے ننگا کرنے کو جائز کرنے والی ہیں)اور ستر ماننے والوں کے دلائل والی احادیث ایک تو قولی ہیں اور دوسری وہ حاظرہ(رانوں کو ننگا کرنے کی ممانعت کرنے والی)ہیں۔وہ اصولی قاعدے،جو ایسی صورت میں دو طرح کے دلائل میں ترجیح اور
Flag Counter