Maktaba Wahhabi

217 - 699
’’بات وہی ہے جو حضرت ابیّ رضی اللہ عنہ نے کہی ہے۔اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی غلط نہیں کہا۔‘‘ اور آگے وہ قول ہے جو ہم ذکر کر چکے ہیں۔[1] جس میں انھوں نے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔جن جن کپڑوں کا ذکر ہوا ہے،ان میں سے ہر جوڑے کے ذریعے سے کندھوں سمیت تمام اعضاے ستر کو ڈھانپا جا سکتا ہے،حتیٰ کہ نیکر جو بظاہر رانوں کو نہیں ڈھانپ سکتا،لیکن جب اس پر کندھوں سے لے کر پاؤں تک آنے والی بڑی چادر لپٹی ہوئی ہو یا ان عرب ممالک میں مروج قمیص پہنی ہو،جسے ثوب کہتے ہیں،جو پاؤں تک ہی ہوتا ہے،تو ایسے میں نیکر بھی کام دے جائے گا،کیونکہ اصل ساتر چادر یا ثوب ہوں گے۔ لباس کی یہ اقسام بھی محض بطورِ وضاحت و مثال ہیں،یہ نہیں کہ ان کے سوا کسی اور کپڑے میں نماز ہی نہیں ہوتی،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ لباس ساتر ہونا چاہیے،وہ کسی بھی نام سے پکارا جاتا ہو۔ اس حدیث سے اس بات کی وضاحت بھی ہوگئی کہ تنگی کے زمانے میں ایک ہی کپڑے میں نماز جائز رہی ہے اور رہے گی،لیکن فراخی میں دو کپڑوں میں نماز پڑھنا ہی افضل ہے۔خصوصاً جبکہ سنن ابی داود و بیہقی میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: {نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ یُّصَلِّيَ الرَّجُلُ فِيْ سَرَاوِیْلَ وَلَیْسَ عَلَیْہِ رِدَائٌ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا کہ کوئی شخص صرف شلوار پہن کر نماز پڑھے اور اس پر اوپر والی چادر نہ ہو۔‘‘ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا اور پتا چلتا ہے کہ جسم کے وہ بالائی حصے(کندھے وغیرہ)جو مقامِ ستر نہیں ہیں،انھیں ڈھانپنا بھی واجب و ضروری ہے،لیکن جمہور اہلِ علم نے اس نہی کو نہی تنزیہی قرار دیا ہے،جیسا کہ کندھوں کو ڈھانپنے سے متعلق موضوع کے ضمن میں ہم ذکر کر آئے ہیں۔ الغرض مردوں کے لیے دو کپڑوں میں نماز ادا کرنا افضل ہے اور قاضی عیاض،علامہ ابن عبدالبر،امام قرطبی اور امام نووی رحمہم اللہ نے اس پر اجماعِ امت ذکر کیا ہے،البتہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے ایک کپڑے میں نماز کے جواز کا ذکر ائمہ کرام سے نقل کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے:
Flag Counter