Maktaba Wahhabi

218 - 699
’’وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُھُمُ الصَّلَاۃَ فِيْ ثَوْبَیْنِ‘‘ ’’بعض ائمہ نے دو کپڑوں میں نماز کو مستحب قرار دیا ہے۔‘‘ ان کے اس قول سے پتا چلتا ہے کہ دو کپڑوں کی فضیلت ہونے پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے،بلکہ اس میں بھی کچھ اختلاف ہے۔[1] لیکن اس سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ دو کپڑوں کی قدرت ہونے کی حالت میں دو ہی میں نماز ادا کرنا بہتر و افضل ہے،کیونکہ دو میں ستر پوشی بھی زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے اور دو میں زینت بھی ہے،جس کا قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے: ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾[الأعراف:31] ’’ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔‘‘ نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز کے وقت زینت اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے،چنانچہ معجم طبرانی اوسط،سنن بیہقی اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَلْبَسْ ثَوْبَیْہِ} ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھے۔‘‘ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقے کو زینت قرار دیتے ہوئے فرمایا: {فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ مَنْ یُّزَیَّنُ لَہٗ}[2] ’’اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کے لیے زیب و زینت اختیار کی جائے۔‘‘ یوں تو ان احادیث صحیحہ ہی میں کفایت و برکت ہے،البتہ یہیں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا عمل بھی دیکھتے جائیے،ان کے بارے میں مذکور ہے: {إِنَّہٗ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ لَبِسَ أَجْوَدَ ثِیَابِہٖ} ’’وہ جب نماز پڑھنے لگتے تو اپنے خوبصورت ترین کپڑے پہنتے تھے۔‘‘ جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا تھا:
Flag Counter