Maktaba Wahhabi

233 - 699
محمد اسماعیل سلفی آف گوجرانوالہ کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا تھا،جس پر موصوف نے بڑا تفصیلی جواب یا فتویٰ صادر کیا تھا۔جسے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ نے اپنی اسی اشاعت میں نشر کیا تھا،جس میں مولانا غزنوی والا قدرے مفصّل مگر اس سے نسبتاً مختصر فتویٰ نشر کیا تھا۔ مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ بھی کافی مفصّل و مدلّل ہے،جو ’’فتاویٰ علماے حدیث‘‘ کے چار صفحات پر مشتمل ہے۔موصوف رحمہ اللہ نے پہلے لکھا ہے کہ اس سوال پر تین وجوہ سے غور کیا جا سکتا ہے: 3۔ مطلق جواز اور اباحت کے لحاظ سے۔ 2۔ افضلیت یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عام عمل کے لحاظ سے۔ 3۔ حرمت اور عدمِ جواز کے لحاظ سے۔ پھر انھوں نے نماز میں سترِ مغلّظ(شرمگاہ)کو ڈھانپنے کے دلائل ذکر کیے ہیں اور ذکر کیا ہے کہ اعضاے ستر کو ویسے بھی ننگا رکھنا درست نہیں،نماز میں تو قطعاً حرام و ناجائز ہوگا۔ یہ تو ہوا سترِ مغلّظ کے سلسلے میں،جبکہ: ’’سر چونکہ بالاتفاق اعضاے ستر میں سے نہیں،اس لیے اگر کسی وقت ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز بالاتفاق صحیح ہوگی۔اس کے لیے نہ بحث کی ضرورت ہے،نہ احادیث کی ٹٹول کی ضرورت،جس طرح کوئی پنڈلی،پیٹ،پشت وغیرہ اعضا ننگے ہوں تو نماز جائز ہے،ننگے سر بھی نماز درست ہے،لیکن اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔ ’’امام اگر نماز کے بعد پاؤں آسمان(یا قبلہ)کی طرف کرے یا مقتدی کوئی ایسی حرکت کریں،تو حدیث میں اس سے رکاوٹ ثابت نہیں ہوگی،لیکن عقلمند ایسا کرنے سے پرہیز کرے گا،ننگے سر کی عادت بھی تقریباً اسی نوعیت کی ہے،جواز کے باوجود ایسی عادات عقل و فہم کے خلاف ہیں۔عقل مند اور متدیّن آدمی کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلِ علم کا طریق وہی ہے جو اب تک مساجد میں متوارث اور معمول بہا ہے۔کوئی مرفوع صحیح حدیث میری نظر سے نہیں گزری،جس سے اس(ننگے سر نماز کی)عادت کا جواز ثابت ہوتا ہو،خصوصاً باجماعت فرائض میں بلکہ عادتِ مبارکہ یہی تھی کہ پورے لباس سے نماز ادا فرماتے تھے۔‘‘
Flag Counter