Maktaba Wahhabi

234 - 699
امام بخاری کے ’’بَابُ وُجُوْبِ الصَّلَاۃِ فِي الثِّیَابِ وَقَوْلُ اللّٰہِ تَعَالیٰ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾[الأعراف:31] وَمَنْ صَلّٰی مُلْتَحِفًا فِيْ ثَوْبٍ وَّاحِدٍ‘‘ الخ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ زینت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اعضاے ستر ڈھانپنے کے علاوہ اچھے کپڑوں میں نماز ادا کی جائے۔عام ذہن کے لوگوں کو اس قسم کی احادیث سے غلطی لگی ہے کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جائے تو سر ننگا رہے گا،حالانکہ ایک کپڑے کو اگر پوری طرح لپیٹا جائے تو سر ڈھکا جا سکتا ہے۔پھر صحیحین و سنن کی متعدد احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی میں سر ننگا رکھنے کا ذکر نہیں،خصوصاً جس میں عادت اور کثرتِ عمل ثابت ہو۔ پھر احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صورت یا تو صرف اظہارِ جواز کے لیے ہے یا کپڑوں کی کمیابی کی وجہ سے۔ان حالات سے جواز یا اباحت تو ثابت ہوسکتی ہے،سنت یا استحباب ظاہر نہیں ہوتا۔‘‘ اسی طرح حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ والا وہ اثر جو ہم ذکر کر چکے ہیں،جس میں مختلف کپڑوں کا ذکر آیا ہے۔پھر اسے نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’اس سے کپڑوں کی قلت اور عدمِ استطاعت صراحتاً سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر پورے کپڑے میسر ہو سکیں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلف سے مسکنت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ آگے فتح الباری سے ایک سے زیادہ کپڑوں میں نماز مستحسن ہونے اور صاحبِ استطاعت کے لیے اس کے واجب و افضل ہونے اور صرف ایک کپڑے میں نماز کو تنگ حالی پر محمول کرنے کا پتا دینے والی تصریحات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’غرض کسی حدیث سے بھی بلا عذر ننگے سر نماز کو عادت اختیار کرنا ثابت نہیں،محض بے عملی یا بد عملی کی وجہ سے یہ رواج بڑھ رہا ہے،بلکہ جہلا تو اسے سنت سمجھنے لگے ہیں۔‘‘ العیاذ باللّٰه نماز کے لیے ایک کے بجائے دو کپڑے پہننے اور ان سے زینت اختیار کرنے والی بعض
Flag Counter