Maktaba Wahhabi

276 - 699
فرماتے ہیں: ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ عورتیں ہیں،جو اتنے باریک کپڑے کا لباس پہنتی ہیں،جو ساتر ہونے کے بجائے تمام اعضا کے اوصاف بتا رہا ہوتا ہے،ایسی عورتیں نام کی تو لباس میں ملبوس ہوتی ہیں،لیکن فی الحقیقہ وہ عریاں ہوتی ہیں۔‘‘[1] علامہ ہیتمی نے بھی ’’الزواجر‘‘ میں ان الفاظ کی ایسی ہی تشریح کی ہے اور جسم کو بیان کرنے والے کپڑے پہننے کو کبیرہ گناہوں میں سے کبیرہ گناہ نمبر(108)پر ذکر کیا ہے۔ایسا کپڑا پہننے کی ممانعت کا پتا بعض آثار سے بھی چلتا ہے،مثلاً طبقات ابن سعد میں ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں کہ منذر بن زبیر عراق سے لوٹ کر آئے تو انھوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی طرف باریک مروزی و کوہستانی کپڑے کا لباس بھیجا،جبکہ ان دونوں موصوفہ نابینا ہوچکی تھیں،لہٰذا انھوں نے اپنے ہاتھ سے اس کپڑے کو چھوا اور فرمایا: ’’أُفٍّ! رُدُّوْا عَلَیْہِ کِسْوَتَہٗ‘‘ ’’اُف! یہ کپڑا نہیں واپس لوٹا دو۔‘‘ حضرت منذر کو یہ ناگوار گزرا اور عرض کی: ’’امی جان! اس میں سے بدن کا رنگ نظر نہیں آتا تو انھوں نے فرمایا: ’’إِنَّھَا إِنْ لَّمْ تَشِفْ فَإِنَّھَا تَصِفُ‘‘[2] ’’یہ اگرچہ رنگ نہیں بتاتا،لیکن اعضاے جسم کے اوصاف و حدود تو بتاتا ہے۔‘‘ ان احادیث و آثار کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے،جو موطا امام مالک،سنن کبریٰ بیہقی اور طبقات ابن سعد میں حضرت ام علقمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی حضرت حفصہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں: ’’وَعَلَیْھَا خِمَارٌ رَقِیْقٌ یَشِفُ عَنْ جَبِیْنِھَا‘‘ ’’جبکہ وہ ایسا باریک دوپٹا لیے ہوئے تھیں،جس کے اندر سے ان کی پیشانی نظر آرہی تھی۔‘‘
Flag Counter