Maktaba Wahhabi

283 - 699
ضرورت و مجبوری کے۔‘‘ ایسے ہی دورِ حاضر کے معروف مفسر علامہ شنقیطی نے اپنی تفسیر ’’أضواء البیان‘‘(6/192-197)میں﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کے سلسلے میں تفصیلی بحث کی ہے اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے قول کے بارے میں،جس میں کہا گیا ہے کہ﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾ سے مراد کپڑے ہیں،اپنا فیصلہ دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَھٰذَا الْقَوْلُ ھُوَ أَظْھَرُ الْأَقْوَالِ عِنْدَنَا وَأَحْوَطُھَا وَأَبْعَدُھَا مِنَ الرِّیْبَۃِ وَأَسْبَابِ الْفِتْنَۃِ‘‘[1] ’’یہ تمام اقوال سے زیادہ صحیح،سب سے زیادہ قرینِ احتیاط اور شک و شبہہ نیز اسبابِ فتنہ سے بعید تر قول ہے۔‘‘ پھر آگے(ص:198 تا 202)اس قول کے راجح و صحیح تر ہونے کے اسباب ذکر کیے ہیں۔ اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ موصوف کے نزدیک ہاتھوں اور چہرے کا بھی پردہ ہے،اس قول کو ترجیح دینے کے لیے انھوں نے جو اسباب ذکر کیے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کو زینت ظاہر کرنے سے منع فرمایا ہے اور صرف اس کی اجازت دی گئی ہے جو خود بخود ظاہر ہوجائے۔ اب زینت کے معنیٰ کو لغوی اعتبار سے دیکھا جائے گا،یا کسی دوسرے زاویے سے۔بہر حال جو بات فوراً ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ زینت ان آرایشی امور و اشیا کا نام ہے،جو کسی بھی چیز کے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر لفظِ زینت آیا ہے اور انھی معنوں میں آیا ہے۔ اس طرح زینت کا جو متبادر الی الذہن معنیٰ ہے اس میں کپڑے وغیرہ تو آسکتے ہیں،لیکن جسم کے اعضا،ہاتھ اور چہرہ وغیرہ نہیں اور معروف و متبادر معنیٰ سے عدول کر کے کوئی معنیٰ اس وقت تک نہیں لیا جا سکتا،جب تک اس کا کوئی قرینۂ صارفہ نہ ہو اور یہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں کہ زینت سے مراد کپڑے وغیرہ کو چھوڑ کر اعضاے جسم مراد لیے جائیں،لہٰذا﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کی صحیح تر تفسیر کپڑے ہی ہے،جیسا کہ صحابیِ رسول حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔[2]
Flag Counter