Maktaba Wahhabi

284 - 699
یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیں کہ اگر کوئی کہے کہ چہرے اور ہاتھوں والا قول بھی ایک صحابی کا ہے اور صحابی بھی وہ جو ترجمان القرآن کے نام سے معروف ہیں تو ایسے شخص کو کہا جا سکتا ہے کہ بلاشبہہ وہ صحابی اور ترجمان القرآن ہیں۔اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا بھی فرمائی تھی کہ اے اﷲ! انھیں علم القرآن عطا فرما،جیسا کہ صحیحین،مسند احمد اور دیگر کتبِ حدیث میں ہے: {اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ}[1] ’’اے اﷲ! انھیں(عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو)علمِ قرآن عطا فرما۔‘‘ {اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِي الدِّیْنِ}[2] ’’اے اﷲ! انھیں دین کی سمجھ(علمِ دین)عطا فرما۔‘‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ معصوم عن الخطاء تو نہیں تھے اور پھر کسی صحابی کی وہ تفسیر حرفِ آخر ہوتی ہے جس کا مخالف دوسرا کوئی صحابی نہ ہو،جبکہ اس مسئلے میں ایسا نہیں ہے۔لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو چھوڑ کر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کو لینے میں کوئی قباحت نہیں،بلکہ اسی کا لینا قرینِ احتیاط ہے۔ دور حاضر کے ایک دوسرے مفسر مولانا سید مودودی رحمہ اللہ اپنی تفسیر تفہیم القرآن(3/385-386)میں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کے پہلے حصے میں ارشاد ہوا ہے: ﴿وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ﴾[النور:31] ’’وہ اپنی آرایش و زیبایش کو ظاہر نہ کریں۔‘‘ دوسرے حصے میں﴿اِلَّا﴾بول کر اس حکمِ نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے،وہ ہے: ﴿مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾[النور:31] ’’جو کچھ اس آرایش و زیبایش میں سے ظاہر ہو یا ظاہر ہوجائے۔‘‘ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہیں کرنی چاہیے،البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہوجائے(جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے،کیونکہ بہر حال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہر حال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے)اس پر اﷲ کی طرف سے کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ،حسن بصری،ابن سیرین اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے۔اس کے
Flag Counter