Maktaba Wahhabi

489 - 699
﴿وَ سَکَنْتُمْ فِیْ مَسٰکِنِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَ تَبَیَّنَ لَکُمْ کَیْفَ فَعَلْنَا بِھِمْ وَ ضَرَبْنَا لَکُمُ الْاَمْثَالَ﴾[ابراھیم:45] ’’اور تم انہی بستیوں میں آباد وسکونت پذیر ہوگئے ہو جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور یہ بات تم پر روشن ہو چکی ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا(عذاب بھیج کر)اور ہم نے تمہارے سامنے ان کے تمام واقعات بیان بھی کر دیے ہوئے ہیں۔‘‘ تفسیر کبیر رازی میں ہے کہ ان کے گناہوں کی سزا میں ہم نے ان پر جو عذاب نازل کیے،وہ سب تم کو معلوم ہو چکے تھے مگر تم زبان سے اقرار نہیں کرتے تھے۔[1] کتابوں اور پیغمبروں کی زبانی ان کے واقعاتِ عذاب تمھیں بتا دیے گئے ہیں،لیکن تب بھی تمہیں عبرت نہ ہوئی۔مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ اور شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے مشترکہ حاشیہ و تفسیری فوائد میں علامہ عثمانی نے اس آیت کے حاشیے میں لکھا ہے کہ تمھارے پچھلے ان ہی بستیوں میں یا ان کے آس پاس آباد ہوئے،جہاں اگلے ظالم سکونت رکھتے تھے اور ان کی عادات و اطوار اختیار کیں،حالانکہ تاریخی روایات اور متواتر خبروں سے ان پر روشن ہو چکا تھا کہ ہم اگلے ظالموں کو کیسی سزا دے چکے ہیں ہم نے اممِ ماضیہ کے یہ قصے کتبِ سماویہ میں درج کرکے انبیاء oکی زبانی ان کو آگا ہ بھی کر دیا تھا،مگر انھیں ذرہ بھی عبرت نہ ہوئی۔اسی سر کشی،عناد اور عداوتِ حق پر اڑے رہے: ﴿حِکْمَۃٌم بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ﴾[القمر:5] [2] ’’ایسی حکمت جو نصیحت کے مقصد کو بدرجۂ اتم پورا کرتی ہے،مگر تنبیہات ان پر کارگر نہیں ہوتیں۔‘‘ گویا سورت ابراہیم کی اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سرز نش کی ہے اورڈانٹ پلائی ہے جو ان بستیوں میں سکونت پذیر ہوئے،جن پر ان کے ظلم کی پاداش میں اﷲ تعالیٰ نے عذاب نازل کیے تھے۔ایسے ہی حدیث شریف میں بھی مقاماتِ عذاب کے بارے میں ایسی ہی تعلیمات ملتی ہیں۔چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک کے لیے جا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے تو راستے میں قومِ ثمود
Flag Counter