Maktaba Wahhabi

493 - 699
ہے،جس میں عبداﷲ بن ابو المُحِلّ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’کُنَّا مَعَ عَلِيّ فَمَرَرْنَا عَلَی الْخَسَفِ الَّذِيْ بِبَابِلَ فَلَمْ یُصَلِّ حَتّٰی أَجَازَہٗ‘‘ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہمارا گزر بابل کے اس مقام سے ہوا،جہاں(نمرود کے محل کو)دھنسانے کا واقعہ رونما ہوا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز نہیں پڑھی،یہاں تک کہ وہاں سے آگے نہ نکل گئے۔‘‘ یہ تو راوی کا بیان ہے،جب کہ مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں ایک دوسرے طریق سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی بھی مروی ہے: ’’مَا کُنْتَ لَأُصَلِّيْ فِيْ أَرْضِ خَسَفَ اللّٰہُ بِھَا‘‘[1] ’’میں اس زمین پر نماز پڑھنے والا نہیں ہوں،جہاں اﷲ تعالیٰ نے(مجرموں متکبروںکو)زمین میں دھنسا دیا تھا۔‘‘ یہ الفاظ انھوں نے تین مرتبہ دہرائے،جب کہ سنن ابی داود میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ایک دوسرے انداز سے بھی مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: {نَھَانِيْ حَبِیْبِيْ علیہ السلام۔۔۔أَنْ أُصَلِّيْ فِيْ أَرْضِ بَابِلَ فَإِنَّھَا مَلْعُوْنَۃٌ}[2] ’’مجھے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ میں ارضِ بابل پر نماز پڑھوں،کیونکہ وہ تو ملعون مقام ہے۔‘‘ لیکن یہ حدیث امام خطابی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر محدّثینِ کرام کے بقول ضعیف ہے۔[3] لہٰذا یہ قول قابلِ استدلال نہیں،البتہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما والی مرفوع احادیث اور حضرت علی رضی اللہ عنہ والے موقوف آثار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مقاماتِ عذاب پر نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔امام خطابی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا ضعف ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’مجھے اہلِ علم میں سے کسی کا پتا نہیں جو ارضِ بابل میں نماز پڑھنے کو حرام قرار دیتا ہو۔موصوف کا یہ قول ان کے اپنے علم کی حد تک ہے،جب کہ ہم نے جو تفصیل ذکر کی ہے،اس سے
Flag Counter