Maktaba Wahhabi

494 - 699
حرمت نہیں تو کم از کم کراہت کا پتا چل رہا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ممکن کوشش کرکے ایسے مقاماتِ عذاب پر نماز ادا کرنے سے گریز کیاجائے تو یہی بہتر ہے۔‘‘[1] سنن ترمذی و ابن ماجہ،مسند عبد بن حمید اور معانی الاثار طحاوی میں ایک روایت ہے،جس میں سات مقامات پر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی۔چنانچہ اس میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: {إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَھٰی أَنْ یُّصَلَّیٰ فِيْ سَبْعَۃِ مَوَاطِنَ فِيْ الْمَزْبَلَۃِ وَالْمَجْزَرَۃِ وَالْمَقْبَرَۃِ وَقَارِعَۃِ الطَّرِیْقِ وَفِيْ الحَمَّامِ وَفِيْ أَعْطَانِ الْإِبِلِ وَفَوْقَ ظَھْرِ بَیْتِ اللّٰہِ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہوں پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا:1کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ(روڑی پر)2کمیلے اور بچڑ خانے میں 3قبرستان میں 4عام گزر گاہ یا چلتی راہ میں 5حمام میں 6اونٹوں کے تھانوں(باڑوں)میں 7اور خانہ کعبہ کی چھت پر۔‘‘ اس حدیث کو ’’المنتقیٰ‘‘ میں نقل کر کے ابو البرکات المجد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی امام ترمذی کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔اس کے ایک راوی زید بن جبیرہ کی یاد داشت میں کلام ہے۔یہی حدیث لیث بن سعد نے عبداﷲ بن عمر العمری عن نافع عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے بھی بیان کی ہے،لیکن اس لیث بن سعد والی حدیث سے تو ابن عمر والی حدیث جو زید،داود اور نافع کی سند والی ہے،وہ اچھی اور زیادہ صحیح ہے۔عمری کو بھی بعض محدّثین نے حافظے کے اعتبار سے ضعیف قرار دیا ہے،جب کہ امام الحرمین جوینی اور ابن سکن نے اسے صحیح کہا ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ میں اسے نقل کر کے اس پر کوئی خاص رد و قدح نہیں کی،جس سے ان کا رجحان بھی اس حدیث کے کسی درجہ قوی ہونے کی طرف ہی لگتا ہے،لیکن اکثر محدّثین اس کے ضعف کی طرف ہی گئے ہیں۔ لہٰذا یہ روایت پایہ ثبوت و استدلال کو نہیں پہنچتی،البتہ اس میں جن سات مقامات کا ذکر آیا ہے،ان میں سے قبرستان،حمام اور اونٹوں کے باڑوں کا ذکر دوسری احادیث کے حوالے سے آچکا
Flag Counter