Maktaba Wahhabi

524 - 699
{مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا وَلَوْ کَمَفْحَصِ قَطَاۃٍ أَوْ أَصْغَرَ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ}[1] ’’جس نے اﷲ کی رضا کے لیے مسجد بنائی،اگرچہ وہ قطاۃ نامی پرندے کے گھونسلے جتنی یا اس سے بھی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو،اﷲ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔‘‘ قطاۃ کے گھونسلے والے الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عثمان والی حدیث میں،طبرانی اوسط میں حضرت انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں اور حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی وارد ہوئے ہیں۔[2] اکثر اہلِ علم نے گھونسلے کے ذکر کو مبالغے پر محمول کیا ہے،کیونکہ قطاۃ کے انڈے دینے اور سونے والا گھونسلا تو اتنا بھی نہیں ہوتا کہ اتنی جگہ پر کوئی نماز پڑھی جا سکے۔اس لفظ کے برائے مبالغہ ہونے کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے،جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ اس سے مراد مبالغہ نہیں،بلکہ اس سے اس کا ظاہر معنیٰ و مفہوم ہی مراد ہے کہ کہیں مسجد میں اتنی ہی ضرورت تھی جو پوری کر دی گئی تو اس اضافے کا یہ مقام ہوگا یا پھر یہ کہ مسلمانوں کی ایک جماعت یعنی کئی افراد نے مشترکہ طور پر ایک مسجد تعمیر کی اور ہر ایک کے حصے میں پوری مسجد سے اتنی جگہ کا تعمیر ہونا ہی آیا جتنا گھونسلا ہوتا ہے،تب بھی اسے اﷲ تعالیٰ جنت میں گھر عطا کرے گا اور جنت میں گھر کا مِلنا دخولِ جنت کی صاف صاف ضمانت ہے،کیونکہ جو جنت میں داخل نہیں ہوتا،وہ اس گھر میں کیسے داخل ہوگا،جو اُس کے لیے جنت میں بنایا جائے گا؟ گویا جنت میں گھر ملنے کا صاف صاف مفہوم جنت میں داخل کیا جانا ہے۔[3] 9۔ جنت میں داخل کیے جانے اور جنت میں گھر عطا کیے جانے کی بشارتیں بعض دیگر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہیں،جن میں سے ایک امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنن ابن ماجہ میں مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {مَنْ بَنَی لِلّٰہِ مَسْجِدًا بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ}[4]
Flag Counter