Maktaba Wahhabi

530 - 699
ستون بنائے۔پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس میں بہت توسیع کی،اس کی دیواریں منقش پتھروں اور چونے سے بنائیں۔اس کے ستون بھی منقش پتھروں کے بنائے اور اس کی چھت ساگوان کی لکڑی کی بنوائی۔یہ بخاری شریف(1/540)’’کتاب الصلاۃ،باب بنیان المسجد‘‘ میں وارد شدہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ایسے ہی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ انھوں نے جب مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجدید و توسیع کروائی تو فرمایا: ’’أُکِنُّ النَّاسَ مِنَ الْمَطَرِ‘‘ ’’میں لوگوں کو بارش سے بچاتا ہوں۔‘‘ ساتھ ہی معمار کو حکم فرما دیا: ’’إِیَّاکَ أَنْ تُحَمِّرَ وَتُصَفِّرَ فَتَفْتِنُ النَّاسَ‘‘ ’’خبردار! مسجد کو لال پیلا رنگ نہ کرو،یہ لوگوں کے لیے باعثِ فتنہ ہوگا۔‘‘ اندازہ فرمائیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں جب چار دانگِ عالم کی دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو عالی شان سے عالی شان مسجد بنوا سکتے تھے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی اینٹوں اور کھجور کے تنوں اور پتوں سے مسجد بنوائے رکھی،حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اس میں سرِمو فرق نہیں آنے دیا۔ پھر جب حضرتِ فاروق کی خلافت کا زمانہ آیا تو کھجور کے پتوں اور تنوں کے بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تجدید اور مسلمانوں کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے اس کی توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی تو باوجود بے شمار فتوحات کے اور دور دراز کے ملکوں کا مال آ جانے کے حضرتِ فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو انہی اشیا سے بنوایا،جن سے اسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوایا تھا،وہ چاہتے تو دنیا جہان کی دولتیں قدموں میں ڈھیر تھیں،اتنی عالی شان مسجد بنوا لیتے کہ دنیا دیکھتی،لیکن انھوں نے ایسا کرنا تو کجا،معمار کو لال پیلے رنگ و روغن سے بھی سختی کے ساتھ منع فرما دیا،تاکہ یہ رنگ و روغن اور یہ گُل کاریاں کہیں لوگوں کے لیے باعثِ فتنہ نہ بن جائیں،یعنی نماز کے دوران توجہ نہ ہٹا دیں اور ان کے خشوع و خضوع میں حارج اور نماز میں مخل نہ ہوں۔شارح بخاری امام ابن بطال رحمہ اللہ نے کہا ہے
Flag Counter