Maktaba Wahhabi

587 - 699
یہ ہے کہ علم کی کوئی انتہا نہیں،ہر شخص علم کا مزید محتاج رہتا ہے۔[1] غرض کہ علم سیکھنا فرض ہے اور علم و علما سے دوری جہالت کے تسلط کو مضبوط بناتی ہے۔حصولِ علم کے فرض ہونے کا پتا اس حدیث سے بھی چلتا ہے،جو سنن ابن ماجہ،الکامل لابن عدی اور شعب الایمان بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے،معجم طبرانی صغیر اور تاریخ بغداد خطیب میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے،معجم طبرانی اوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے،معجم طبرانی کبیر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے،تاریخ بغداد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے،طبرانی اوسط اور شعب الایمان بیہقی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ}[2] ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان(مردو زن)کا فرض ہے۔‘‘ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے شروع میں تو ایسے ہی ہے،البتہ آخر میں مزید یہ اضافی الفاظ بھی منقول ہیں: {وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ یَسْتَغْفِرُ لَہٗ کُلُّ شَیْیٍٔ حَتّٰی الْحِیْتَانِ فِي الْبَحْرِ}[3] ’’طالب علم کے لیے دنیا کی ہر چیز دعاے مغفرت کرتی ہے،حتیٰ کہ سمندر میں مچھلیاں بھی اس کے لیے بخشش کی دعائیں کرتی ہیں۔‘‘ {طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم}تک تو یہ حدیث صحیح ہے،جبکہ اس کے آخر میں جو بعض طُرق میں((۔۔۔و مسلمۃ}کا لفظ آیا ہے،وہ صحیح نہیں آیا ہے۔محدّثین نے اس پر کلام کیا ہے،ویسے بھی اس کے بغیر بھی لفظِ مسلم مرد و زن سب کو شامل ہے۔ یہاں اس بات کی صراحت بھی کرتے جائیں کہ جس علم کے حصول کو فرض قرار دیا گیا ہے اور جس کے حصول کی ترغیب دلائی گئی ہے اور جس علم کے حلقوں میں بیٹھنے کی طرف پُرزور انداز سے دعوت دی گئی ہے،اس سے علمِ قرآن اور سنت مراد ہے نہ کہ قصے کہانیوں کی کوئی کتاب۔ان حلقوں سے مراد بھی درسِ قرآن و حدیث کے حلقے ہیں نہ کہ وہ حلقے جن میں محض باتیں ہو رہی ہوں یا قصہ
Flag Counter