Maktaba Wahhabi

588 - 699
گوئی کا دَور چل رہا ہو،کیونکہ مساجد میں ضعیف اور موضوع روایات پر مبنی تقریر یا خطاب اور ایسی باتوں کے لیے حلقہ بنانا ممنوع ہے،جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے اور نفلی عبادت سے افضل اس حلقے میں بیٹھنا ہے،جس میں قرآن و سنت کا درس ہو رہا ہو۔ بعض لوگ اس حلقے میں بیٹھنے سے اعراض کرتے ہیں،جس میں کوئی عالمِ دین وعظ و نصیحت کرتا ہے اور قرآن و حدیث کے جواہر اور حکمت و دانائی کے موتی بانٹتا ہے۔ایسے حلقوں کو چھوڑ کر اگر کوئی شخص دوسری طرف محض وقت گزاری کے لیے مجمع لگا لے اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے میں مشغول ہوجائے تو ایسے شخص پر صحیح بخاری کی وہ حدیث صادق آتی ہے،جسے امام صاحب رحمہ اللہ نے:’’باب من قعد حیث ینتھي بہ مجلس،ومن رأی فرجۃ في الحلقۃ فجلس فیھا‘‘(یعنی اس شخص کا باب جو جہاں جگہ پائے بیٹھ جائے اور جو کسی حلقے میں کوئی خالی جگہ دیکھے،وہاں جابیٹھے)اس باب میں وارد حدیث میں حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے،صحابہ رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے،اسی اثنا میں تین آدمی آئے،دو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ایک واپس چلا گیا اور ان دو میں سے ایک حلقے کی خالی جگہ میں بیٹھ گیا اور دوسرا پیچھے ہی بیٹھ گیا۔جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {أَلَا أُخْبِرُکُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلَاثَۃِ؟ أَمَّا أَحَدُھُمْ فَآوٰی إِلَی اللّٰہِ فَآوَاہُ اللّٰہُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْیَا،فَاسْتَحْیَا اللّٰہُ مِنْہُ،وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ،فَأَعْرَضَ اللّٰہُ عَنْہُ}[1] ’’میں تمھیں تین افراد کے بارے میں بتاتا ہوں۔ایک نے اﷲ سے جگہ مانگی تو اﷲ نے اسے جگہ مہیا فرما دی۔دوسرے کو حیا آگئی تو اﷲ کو بھی اس سے حیا معلوم ہوئی اور تیسرے نے اعراض کیا تو اﷲ تعالیٰ نے بھی اس سے اعراض کیا۔‘‘ اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے علمی مجلسوں کے حلقوں کا استحباب ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی کہ علمی مجلسوں میں با اَدب رہنا چاہیے اور جو خلا ہو،اسے پُر کرنا چاہیے۔اسی طرح حدیث سے ان لوگوں کی تعریف نکلتی ہے،جو بھلائی(علم)کی طلب میں دوسروں کے ساتھ نکلتے ہیں۔آگے لکھتے ہیں کہ علمی حلقوں کی حاضری اور عالم کا
Flag Counter