Maktaba Wahhabi

663 - 699
بعض جاہل تو اپنی جگہ چھیننے والے سے برملا کہہ دیتے ہیں کہ میں یہاں اتنے سال سے بیٹھ رہا ہوں تم یہاں کیوں بیٹھے ہو اور شور مچا کر اسے وہاں سے اُٹھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔دلوں کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے،البتہ ان کے اس فعل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اس جگہ سے انسیت و محبت جہالت کے نتیجے میں اور ریاکاری کے لیے ہوتی ہے کہ لوگ سمجھنے لگیں کہ یہ فلاں شخص کی جگہ ہے اور فلاں توصف اول کا نمازی ہے اور یہ کہ فلاں شخص تو مسجد کے فلاں کونے ہی میں پڑا رہتا ہے۔ایسے ریاکار عابدوں اور زاہدوں کو امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’إحیاء علوم الدین‘‘ میں اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’إغاثۃ اللّٰه فان‘‘ میں خوب لیا ہے اور اس گوشہ نشینی کے ساتھ جو لوگ کاروبارِ جہاں کو ترک کر کے زہد و تقویٰ کا کچھ زیادہ ہی دم بھرنے لگتے ہیں،امام غزالی نے انھیں ’’باب المغرورین‘‘میں فریبِ نفس اور فریبِ شیطان میں مبتلا قرار دیا ہے،جس کی تفصیل کتاب ’’إحیاء علوم الدین‘‘ کے ’’باب المغرورین‘‘ میں دیکھی جا سکتی۔[1] ان امور کی تفصیل ان دونوں کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔یہ دونوں کتابیں اور امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی تلبیس ابلیس کے ایسے مباحث انتہائی عبرت انگیز ہیں،یہ کتابیں اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہیں،لہٰذا اس موضوع کے سلسلہ میں ان کتابوں کا مطالعہ مفیدِ مطلب ہے۔کوئی ترکِ دنیاکر کے مسجد میں گوشہ نشین ہو یا محض نماز کے وقت ہی آئے اور اپنی جگہ مخصوص کیے رکھے،ہر شکل میں یہ ناجائز ہے،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک جگہ کو مخصوص کر لینے سے منع فرمایا اور اسے اونٹ کی عادت قرار دیا ہے،جیسا کہ سنن ابو داود،نسائی،ابن ماجہ،مسندِ احمد اور مستدرکِ حاکم کی معروف حدیث ہے۔جس میں حضرت عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: {نَھٰی النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ نُقْرَۃِ الْغُرَابِ وَأَنْ یُّوَطِّنَ الرَّجُلُ فِي الْمَکَانِ فِي الْمَسْجِدِ کَمَا یُوَطِّنُ الْبَعِیْرُ}[2]
Flag Counter