Maktaba Wahhabi

689 - 699
دوسرے سے قوت پاتے ہیں۔‘‘ آگے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کو سمجھانے کے لیے: {وَشَبَّکَ أَصَابِعَہٗ}[1] ’’اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔‘‘ ایسے ہی حضرت عبداﷲ بن عَمرو یا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایسا کیا تھا،چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ان سے مروی ہے: {شَبَّکَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَصَابِعَہٗ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں۔‘‘ ان دونوں حدیثوں سے بظاہر مطلق جواز معلوم ہوتا ہے،لیکن اگر ممانعت کی حکمتوں پر ذرا غور کیا جائے تو یہاں بھی اطلاق نہیں رہتا،کیونکہ ممانعت کی پہلی حکمت یہ ذکر کی گئی ہے کہ انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا ایک کارِ عبث اور لا یعنی فعل ہے۔اس لیے ممنوع ہے،جبکہ ان احادیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک ایسے نہیں تھا،بلکہ شارح بخاری البدر ابن المنیر کے بقول وہ تو ایک مثال دے کر سمجھانے کی صورت تھی،کیونکہ کسی بات کو محسوس چیز کے ساتھ بنا کر دکھانا زیادہ قابلِ فہم ہوتا ہے،لہٰذا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قوت اختیار کرنے کو انگلیوں میں انگلیاں ڈالنے سے پیدا ہونے والی قوت بنا کر سمجھایا کہ مومن بھی جب انگلیوں کی طرح کندھے سے کندھا ملا کر چلنے لگیں تو وہ بھی ان انگلیوں کے مل کر مضبوط ہونے کی طرح ہی سیسہ پلائی ہوئی دیوار جیسے بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی باہم اختلاف کرنے اور گتھم گتھا ہونے کو بھی اسی سے بآسانی سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کی یہ معقول وجوہات تھیں،وہ محض بلاوجہ نہیں تھا۔دوسرے یہ بھی ہے کہ ممانعت اس کے لیے ہے،جو نماز میں ہو یا نماز کے انتظار میں ہو،جس کا حکم نمازی کا ہے،جبکہ یہ دونوں احادیث مطلق ہیں،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں ہونے کا تو درکنار نماز کے انتظار میں
Flag Counter