Maktaba Wahhabi

641 - 699
زائل کر لیے جائیں،اس پر مستزاد یہ کہ سنن ابو داود،مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوات میں شریک ہوتے تھے اور مشرکین کے برتن و مشکیزے پاتے اور انھیں اپنے استعمال میں لاتے تھے۔ ’’وَلَا یَعِیْبُ ذٰلِکَ عَلَیْھِمْ‘‘ ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات ان کے لیے معیوب قرار نہیں دیتے تھے۔‘‘ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ مشرکین نجس العین نہیں ہوتے کہ ان کا مسجد میں داخلہ ناجائز ہو،پھر اگر ان کے برتنوں کو دھونے کا حکم ان لوگوں کے نجس العین ہونے کی وجہ سے ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے برتنوں کے علاوہ دوسرے برتنوں کے عدمِ وجود کی شرط عائد نہ فرماتے،یعنی ’’اِنْ لَّمْ تَجِدُوْا غَیْرَھَا۔۔۔‘‘ نہ فرماتے کہ اگر تمھیں دوسرے کوئی برتن نہ ملیں،تب ان کے برتنوں کو دھو کر استعمال کر لو،کیونکہ نجاست نہ لگے برتن اور نجاست زائل کر کے پاک کیے گئے برتن میں باہم کوئی فرق ہی نہیں ہے۔وہ پاک ہے اور یہ پاک کر لیا گیا ہے،پھر ان کے برتنوں کے سوا کسی دوسرے برتن کے عدمِ وجود کی کا کیا معنیٰ ہوا؟ یہ دراصل ان سے نفرت دلانے کے لیے تھا کہ وہ عقیدتاً اور معنوی طور پر ناپاک و نجس ہیں نہ یہ کہ وہ جسماً اور حسی طور پر ناپاک و نجس ہیں۔[1] 4۔ مانعین کی طرف سے جو سورت توبہ کے الفاظ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾[التوبۃ:28] اور ایسے ہی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:((إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا یَنْجُسُ}’’کہ مسلمان نجس نہیں ہوتا۔‘‘ نیز فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:((سُبْحَانَ اللّٰہِ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یَنْجُسُ}’’اﷲ پاک ہے،مومن نجس نہیں ہوتا۔‘‘ اس کے مفہومِ مخالف سے جو استدلال کیا جاتا ہے کہ کافر و مشرک نجس ہیں تو مسجد میں کافر و مشرک کے داخلے کو جائز قرار دینے والے اس کا چوتھا جواب یہ بھی دیتے ہیں کہ یہ لوگوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا کرنے اور ان کی اہانت واضح کرنے کے لیے ہے نہ کہ ان کے نجس العین ہونے کی وجہ سے۔اس کے ان سے نفرت و اہانت کے لیے ہونے کا قرینہ بھی موجود ہے،جو کئی ایک احادیث اور واقعات سے ظاہر ہے۔
Flag Counter