Maktaba Wahhabi

159 - 382
صرف ایک بار دودھ پلایا ہے۔ اور وہ بھی بہت کم، تھوڑا سا پھر اسی دودھ پینے والی لڑکی نے اپنی بھتیجی کو جس کی عمر دو ماہ تھی کو دودھ پلایا ہے ۔ کیا وہ لڑکی میرے بیٹے کے نکاح میں آسکتی ہے یعنی میں اپنی بھتیجی کو اپنے بیٹے کے لیے لے سکتی ہوں؟ جزاکم اللہ خیرا۔ (سائلہ۔ بیوہ فقیر احمد سعید) (۴ اگست ۱۹۹۵ء) تاکیداً علیحدہ عرض ہے کہ میں نے صرف ایک بار دودھ پلایا وہ بھی صرف اس حال میں کہ بچی رو رہی تھی۔ اس نے ایک چسکی یا دو، دودھ لیا۔ خاموش ہو گئی میں نے ہٹا دیا۔ جواب :’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ میں حدیث ہے: عَنْ عَائِشَۃَ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ (( لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّۃُ وَالْمَصَّتَانِ)) [1] یعنی ’’ بچے کا ایک دفعہ پستان کو چوسنا یا دو دفعہ چوسنا حرمت پیدا نہیں کرتا۔‘‘ اور دوسری روایت میں ہے: (( لَا تُحَرِّمُ الْإِمْلَاجَۃُ وَلَا الْإِمْلَاجَتَانِ۔)) [2] یعنی ’’ایک دفعہ پستان منہ میں دینا یا دو دفعہ دینا حرمت پیدا نہیں کرتا۔‘‘ ان احادیث کے مفہوم سے بعض اہل علم نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تین دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے لیکن راجح اور محقق مسلک یہ ہے کہ پانچ دفعہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ’’صحیح مسلم‘‘وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا سے مروی ہے پہلے قرآن میں( حرمت ِ رضاعت کے لیے دس کی تعداد تھی پھر پانچ کی اتر آئی۔ دس میں سے پانچ منسوخ ہو کر رہ گئیں۔ اگرچہ پانچ کی آیت قرآن مجید میں موجود نہیں مگر حکم باقی ہے۔ جیسے رجمِ زانی کی آیت موجود نہیں مگر حکم باقی ہے۔ (المنتقیٰ) اور ’’مسند احمد‘‘ وغیرہ میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوحذیفہ کی بیوی کو کہا کہ تو سالم کو دودھ پلا دے اس نے سالم کوپانچ دفعہ دودھ پلا دیا اور دوسری روایت میں ہے سالم کو پانچ دفعہ دودھ پلا دے، سو اس سے سالم اس کی اولاد کے حکم میں ہو گیا۔ [3] یاد رہے عام حالات میں رضاعتِ کبیر قابلِ اعتبار نہیں لیکن شدید ضرورت اور مخصوص حالات میں ثابت ہو جاتی ہے جس طرح کہ قصہ سالم میں ہے۔ ملاحظہ ہو عون المعبودجلد دوم،ص:۱۸۲۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ رضاعت کی ادنیٰ حد پانچ ہے۔ اس سے کم میں حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
Flag Counter