Maktaba Wahhabi

169 - 382
میں حضرت عطاء، طاؤس، ابن مسیب، امام حسن بصری، مکحول، زہری، قتادہ، امام حماد، اوزاعی ، ثوری اور امام اعظم ابوحنیفہ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ مطلقاً دودھ پینے پر حرمت ِ رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کی رائے و فتویٰ کے مقابل جمہور صحابہ و تابعین کے فتاویٰ ہیں تو جمہور کے قول پر عمل کیا جائے گا اور پھر حرام و حلال میں اشتباہ کی صورت میں بچ جانا ہی بہتر ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ اور بقول سائل اگر بچی نے واقعی ایک یا دو دن ایک سے زائد بار دودھ سیر ہوکر پیا ہے تو پھر اس سے حرمت کے ثابت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ بلاشبہ حرمت رضاعت ثابت ہو گئی اور اس بات کے جاننے کے باوجود وہابی کا بخمس رضاعت سے جواز ڈھونڈنا اس کی جہالت و حماقت اور لوگوں کو حرام کاری و زنا کاری میں ڈالنا ہے۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔) (حررّہ محمد انور القادری :۹۸/۷/۱) سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ خالہ نے اپنی بھانجی کو دودھ پلایا آیا خالہ کی اولاد اور بھانجی کی اولاد کی آپس میں شادی ہو سکتی ہے۔ قرآن و سنت سے واضح فرمائیں۔(سائل محمد ابراہیم شیرا کوٹ لاہور) جواب : دودھ پلانے سے بھانجی اپنی مرضعہ خالہ کی رضاعی بیٹی بن گئی اور خالہ کی تمام اولاد اس دودھ پینے والے کے رضاعی بہن بھائی بن گئے۔ اور بھانجی کی اولاد خالہ کی اولاد کی رضاعی بھانجے بھانجیاں بن گئیں جس طرح حقیقی نسبی بھانجے بھانجی کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ اسی طرح خالہ کی اولاد کا اس بھانجی کی اولاد کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجیدکی ’’سورۃ النساء‘‘ آیت نمبر:۲۳ میں ہے: ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ …وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ﴾ ’’حرام کی گئی ہیں تم پر … بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں۔‘‘ صحیح بخاری (ج:۲،ص:۷۶۴) میں ہے: عَنْ عَائِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الوِلاَدَۃِ۔[1] ’’دودھ پلانے کی وجہ سے وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ صحیح بخاری کے اسی صفحہ مذکورہ پر ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ(اپنے چچا) حمزہ کی بیٹی سے نکاح کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّہَا ابْنَۃُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَۃِ۔[2]
Flag Counter