Maktaba Wahhabi

260 - 382
انیس دن بعد رجوع کر لیا پھر ۱۰ ستمبر ۹۷ کو یعنی رجوع سے کوئی ۲۵ دن بعد دوسری طلاق بذریعہ ڈاک بھجوا دی۔ جسے بیوی نے وصول نہ کیا۔ پھر ۱۷ نومبر ۹۷ء کو بذریعہ یونین کمیٹی سوہدرہ طلاق بھجوا دی۔ بیوی نے یہ بھی وصول نہ کی۔ اس وقت عبداللہ کو یقین تھا کہ اب طلاق بائن ہو چکی ہے اور میرا بیوی سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اس دوران عبد اللہ نے اپنی بیوی کو ماں بہن بھی کہا۔ اور برابر اپنے موقف پر قائم رہا۔ آخر جنوری ۹۸ء میں عبد اللہ کسی مولوی صاحب سے ملا اور صورتِ حال سے انھیں آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا تم اپنی بیوی سے نیا نکاح کرکے اسے اپنی زوجیت میں لا سکتے ہو۔ چنانچہ انھوں نے ۶ فروری ۹۸ء کو عبد اللہ کے ایماء پر تشریف لا کر تجدید ِ نکاح فرمادی۔ اب آپ کی خدمت ِ عالیہ میں گزارش ہے۔ ۱۔یہ طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟ ذرا وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں۔ ۲۔مذکورہ نکاح کو شرعاً کیا حیثیت ہے؟ اور ناکح کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ۳۔رجوع سے قبل پہلی ’’طلاق‘‘ کا کیا حکم ہے ؟ وہ کالعدم ہوجاتی ہے یا نہیں؟ ۴۔جو ظہار ہوا اس کی بھی وضاحت فرمادیں کہ کیا حکم ہے؟بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (محمد ادریس فاروقی۔ سوہدرہ ۔ گوجرانوالہ)( ۲۳ اپریل ۱۹۹۹ء) جواب : مذکورہ بالا صورت میں طلاق بائن مغلّظ واقع ہو چکی ہے۔ رجوع کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لیے مجرد تحریر ہی کافی ہے۔ بیوی کا اس کو قبول کرنا ضروری نہیں۔ حدیث میں ہے: إِنَّ اللّٰهِ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسُہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ [1] حدیث ہذا پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: وَاسْتُدِلَّ بِہِ عَلَی أَنَّ مَنْ کَتَبَ الطَّلَاقَ طَلُقَتِ امْرَأَتُہُ لِأَنَّہُ عَزَمَ بِقَلْبِہِ وَعَمِلَ بِکِتَابَتِہِ وَہُوَ قَوْلُ الْجُمْہُورِ ۔[2] ۲۔مذکورہ نکاح قطعاً غیر درست ہے۔ فوراً علیحدگی کرا دی جائے اور اگر ناکح اس پر مصر ہو تو وہ قابلِ تعزیر ہے۔ ۳۔بلا خلاف پہلی طلاق شمار میں آئے گی۔ ۴۔ظہار کا کفارہ ادا کرنا ہو گا، جس کی تفصیل’’ سورۂ مجادلہ‘‘ کے شروع میں ہے۔ بشرطیکہ یہ کلمات حالتِ زوجیت میں کہے ہوں۔
Flag Counter