Maktaba Wahhabi

287 - 382
والد اور بھائی نے جو کہ اس موقع پر موجود تھے، انھوں نے کسی مولانا صاحب سے فتویٰ حاصل کیا اور میاں بیوی کے درمیان رجوع کرا دیا کہ ایک ہی نشست میں تین دفعہ طلاق دینے سے صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ دوسری دفعہ پھر ایک جگہ سے کسی کے کہنے پر فتویٰ لیا تو انھوں نے یہی فتویٰ دیا کہ حالتِ نفاس میں تین دفعہ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔ چند دن پہلے کچھ لوگوں نے اس بارے میں مختلف علمائے کرام کا فتویٰ لا کر دیا کہ اب ان کا اکٹھا رہنا جائز نہیں۔ دوست کے گھر والوں نے یہ فتویٰ دیکھ کر لڑکی کو والد کے گھر بھیج دیا ہے۔ اب آپ سے اس مسئلہ میں فتویٰ درکار ہے کہ قرآن پاک کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بتایا جائے۔ (دعا گو جعفر صادق) (۲۸ مارچ ۱۹۹۷ء) جواب : مسئلہ ہذا میں دراصل اہلِ علم کا دو جگہ اختلاف ہے۔ ۱۔ کیا تین طلاقیں اکٹھی تین کے حکم میں ہیں یا ایک کے؟ اور دوسرا اختلاف یہ ہے کہ حالتِ حیض یا نفاس میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ پہلے مسئلہ میں دلائل کی رو سے محقق مسلک یہ ہے کہ ایک وقت کی تین طلاق اکٹھی ایک رجعی کے حکم میں ہیں۔ چنانچہ’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً [1] اور جہاں تک دوسرے مسئلہ کا تعلق ہے سو اس میں اگرچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے عدمِ وقوع کا مسلک اختیار کیا ہے لیکن دلائل کے اعتبار سے راجح بات یہ ہے کہ حالت حیض میں یا نفاس میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اسی مذہب کو اختیار کیا ہے۔ فرمایا: بَابُ إِذَا طُلِّقَتِ الحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِکَ الطَّلاَقِ۔ ’’یعنی حیض میں دی ہوئی طلاق شمار میں آئے گی۔ ‘‘ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ’ مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا[2] سے وقوع پر استدلال کیا ہے۔’حُسِبَتْ عَلَیَّ بِتَطْلِیقَۃٍ[3] ’’یعنی میری یہ طلاق شمار میں آئی تھی۔ ‘‘ اور اگر کوئی کہے حدیث میں نزاعی مسئلہ تو حیض کا ہے جب کہ اس وقت زیر بحث مسئلہ نفاس ہے؟ تو اس کا
Flag Counter