Maktaba Wahhabi

320 - 382
بعد ازاں ایک دن بکر نے زید کو قتل کردینے یا اغوا کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر آج گیارہ بجے تک طلاق نہ دی تو زید کو قتل یا اغوا کرلیا جائے گا۔ زید کو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے ٹیلیفون پر اپنے لڑکے سے رابطہ قائم کیا تو اس نے بھی طلاق دینے سے انکار کردیا… برادری والوں نے بکر کو بہت سمجھایا کہ طلاق تک بات نہ پہنچے لیکن بکر کا یہی مطالبہ رہا کہ طلاق دے دے ورنہ قتل یا اغوا کروں گا۔ تو برادری والوں نے اور زید نے لڑکے کو بہت مجبور کیا تو لڑکے نے بغیر رضا و رغبت طلاق دے دی۔تو کیا ۱۔ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ ۲۔کیا ہم اس کو خلع کہہ سکتے ہیں؟ ۳۔اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو کیا زید کا لڑکا بکر کی لڑکی کا خاوند تصور ہوگا؟ ۴۔اگر طلاق ہو گئی ہے تو کیا یہ طلاق بالجبر ہے یا نہیں؟ ۵۔طلاق واقع ہونے کی صورت میں حق مہر کا کیا حکم ہے؟ ( کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔ ( سائل ملک حاجی عبدالمجید) (تنظیم اہل حدیث ۱۵ رجب ۱۴۱۶ھ) جواب :صورتِ مرقومہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔ واقعات سے ظاہر ہے کہ لڑکے نے اپنی بیوی کو طلاق محض اپنے والد کی جان بچانے کیلیے دی ہے ورنہ اس کی دلی منشا نہیں تھی۔ حدیث میں ہے: (( اِنَّمَا الاَْعْمَالُ بِالنِِّیَّاتِ)) [1] دوسری حدیث میں ہے: (( اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمُ لَا یَظْلِمُہُ وَ لَا یُسْلِمُہُ )) [2] تیسری روایت میں ہے: (( انْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا)) [3] اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا تھا: ((ھٰذِہِ اُخْتِیْ)) [4]
Flag Counter