Maktaba Wahhabi

363 - 382
محض بحکم ِ عدالت وغیرہ ہر دو صورت میں رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی کیونکہ قرآن میں مسئلہ خلع کو لفظ فدیہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ﴿فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ﴾ (البقرۃ:۲۲۹) اس لیے بعد از خلع عورت کا دوسرے نکاح کے لیے سابقہ خاوند سے حصولِ طلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے ایسی عورت کی عدت بھی راجح مسلک کے مطابق صرف ایک حیض ہے۔ (۲) بالفرض اگر بعد میں الزامات و اتہامات غلط بھی ثابت ہو جائیں تب بھی خلع کی صورت و درستگی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ کیونکہ خلع میں اصل یہ ہے کہ نفرت کا اظہار عورت کی طرف سے ہو اور وہ بالفعل حاصل ہے۔ صورتِ ہذا میں خاوند کا طلاق دینا ضروری نہیں عدالت یا پنچایت وغیرہ کا فیصلہ ہی کافی ہے۔ (۳) بلاشبہ عورت کا نکاح درست ہے تردد کی ضرورت نہیں۔ (۴) مسئلہ کی وضاحت کرنا عام ہے چاہے سائل کے جواب میں ہو یا ویسے ہی کتاب و سنت سے لوگوں کی حاجات و ضروریات کے پیش نظر کسی شے کو کھول کر بیان کردیا جائے۔ اور سائل کی پیش آمدہ مشکل حل کرنے کا نام فتویٰ ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( ای جواب السُّؤَال عَنْ حَادِثَۃِ الَّتِیْ تشکل عَلَی السَّائِلِ ۔)) [1] (۵) جی ہاں بہت سارے اوصاف و شرائط ہیں جو حکام میں ہونی چاہئیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ مثلاً آزاد، بالغ امر، عاقل اور عادل مسلمان ہو۔[2] اور شرعی طور پر متعین وصف و شرط اپنی حیثیت کے اعتبار سے قاضی کے فیصلہ پر اثر انداز ہو گی جو مختلف الانواع ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: بدایۃ المجتہد جزء ۴،ص۴۶۰۔۴۶۱ اور فتح الباری :ج:۱۳،ص:۱۴۶، زیر باب مَتٰی یَسْتَوْجِبُ الرَّجُلُ الْقَضاء نیز ان پر دیوانی مقدمات کا اطلاق ہو سکتا ہے کوئی حرج نہیں۔ لَا مََشَاحَۃَ فِی الاِصْطِلَاحِ (۶) گناہ ہر اس قول اور فعل کا نام ہے جس کا مرتکب گنہگار ٹھہرے۔ علامہ نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( فَالْاِثْمُ کُلُّ فِعْلٍ وَ قَوْلٍ یُوْجِبُ اِثْمَ فَاعِلِہٖ وَ قَائِلِہٖ ۔)) [3]
Flag Counter