Maktaba Wahhabi

105 - 611
امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نئے سرے سے عمل کی ابتدا ہوتی ہے یا قضا و قدر پہلے مقرر کی جا چکی ہے؟ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کو ان کی پشت سے نکالا، تو انھیں ان کے نفس پر گو اہ بنایا، پھر انھیں اپنی ہتھیلی پر لے کر فرمایا: ’’یہ لوگ جنتی ہیں اور یہ لوگ جہنمی ہیں، جنتیوں کے لیے جنت والا عمل آسان کیا جاتا ہے اور جہنمیوں کے لیے جہنم والا عمل۔‘‘[1] سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دو کتا بیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیسی ہیں؟ ہم نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمیں بتا یئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’یہ رب العالمین کی طرف سے نوشتہ ہے، اس میں جنتیوں کے نام، ان کے باپوں کے نام اور قبیلوں کے نام لکھ کر سب کو جمع کردیا گیا ہے، اس میں کبھی اضافہ ہو سکتا ہے نہ کمی۔‘‘ پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا: ’’یہ رب العالمین کی طرف سے نوشتہ ہے، اس میں جہنمیوں کے نام، ان کے باپوں کے نام اور ان کے قبیلوں کے نام لکھ کر سب کو جمع کر دیا گیا ہے، اب اس میں نہ کبھی اضافہ ہو سکتا ہے نہ کمی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے دریا فت کیا: ’’اے اللہ کے رسول! جب معاملہ پہلے ہی فارغ کردیا گیا ہے تو پھر عمل کس بات پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’درست راہ پر قائم رہو، قربت حاصل کرتے جاؤ اور جنتی کا خاتمہ جنت والے عمل پر ہوتا ہے، خواہ اس کا جو بھی عمل رہا ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو جھاڑ کر فرمایا: تمھارا رب بندوں سے فارغ ہو چکا ہے، اب ایک فریق جنتی ہے اور دوسرا فریق جہنمی۔‘‘[2]
Flag Counter