Maktaba Wahhabi

307 - 611
عورت کے سبب ہجرت کی تو اللہ کی طرف سے ایسی ہجرت کا کوئی اجر نہیں۔ یہی معاملہ غیر اللہ کے ذبیحے کا ہے، اگرچہ اس پر ذبح کے وقت ’’بِسْمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرْ‘‘ کہہ کر ہی چھری پھیری گئی ہو لیکن نیت گیارہویں کے موقع پر ذبح کی تھی، اس عمل کی وجہ سے اس قسم کا کھانا کھانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ یہ ذبح اور فاتحہ خوانیاں جائز ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حضرت ابراہیم و اسماعیلi کی بلکہ ہر نبی کے نام کی نذر و نیاز اور فاتحہ ضرور کرتے اور اس عمل کی تلقین امتِ مسلمہ کو بھی ضرور فرماتے۔ لہٰذا گیارھویں کو شرک اور بدعت کی جاہلانہ رسم سے زیادہ کچھ اور نہیں سمجھنا چاہیے۔ محافلِ عرس: مزارات پر عُرس اور سالانہ میلا لگانا بھی برصغیر کے بدعتی مسلمانوں کے رسم و رواج ہیں جن کو دین میںشامل کیا گیا ہے۔جب ان بزرگوں کی تاریخِ وفات یا میلاد آتی ہے تو نہ صرف ان کی قبروں پر بلکہ ان کے گھر وں میں بھی عرسوں کے اہتمام ہوتے ہیں۔ جن میں قرآن خوانیوں کے علاوہ لنگر و تبرک بھی تقسیم ہوتا ہے، لوگ وہاں ثوابِ دارین حاصل کرنے کے نقطہ نظر سے شرکت کرتے ہیں، قبروں پر چراغاں ہوتا ہے، عنبر اور اگر بتیاں سلگائی جاتی اور چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ کچھ قبروں پر غلافِ کعبہ کی مانند نہ صرف غلاف چڑھایا جاتا ہے بلکہ غسلِ کعبہ کی طرح انھیں عرقِ گلاب وغیرہ سے غسل دیا جاتا ہے۔ اکثر مزارات میں نام نہاد دروازے بھی ہوتے ہیں جو صرف عرس کے مواقع پر کھولے جاتے ہیں۔ ان دروازوں سے گزر کر جاہل سمجھتے ہیں کہ اب ان پر بہشت واجب ہوگئی ہے، یہ شیطان نے انھیں الٹا سبق پڑھا دیا ہے۔اگر یہ لوگ توبہ کے بغیر مریں تو ان پر ان نام نہاد بہشت کے دروازوں سے گزرنے کے سبب جنت نہیں بلکہ جہنم واجب ہوجائے گی۔ مسجدِ حرام جہاں اللہ کا گھر ہے، مسجد ِ نبوی جسے خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر کیا ہے، جن کا مقدس ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، ان کے دروازوں سے گزرنے والوں کے بارے میں یہ ضمانت نہیں ہے کہ اس پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔ جب ان مقدس مسجدوں کا یہ عالم ہے تو پھر ان شرک کے اڈوں میں بنے دروازوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ آپ خود ہی اندازہ کریں۔ قبروں پر عمارتیں اور مسجد بنانے والوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، کس قدر افسوس
Flag Counter