Maktaba Wahhabi

537 - 611
ان چھے روزوں کے رکھنے سے سال بھر کے روزوں کا ثواب کس طرح بنتا ہے؟ حدیث شریف میں اس کی صراحت بھی مذکور ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، اُسے ایک ماہ کے عوض دس ماہ کے روزوں کا ثواب ہوگا، کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: { مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا} [الأنعام: ۱۶۰] ’’جو شخص ایک نیکی کرے اُسے دن گنا ثواب دیا جاتا ہے۔‘‘ ’’عید الفطر کے بعد چھے دنوں کے روزے۔‘‘ یہ چھے، ساٹھ دنوں یا دو ماہ کے روزے ہوگئے،جبکہ دس ماہ کے روزوں کا ثواب ماہِ رمضان کی وجہ سے مل گیا۔ ’’تو اس طرح گویا اس نے پورے سال کے روزے ہی رکھ لیے۔‘‘ ایک بات ذہن میں رہے کہ جس کے ذمے رمضان کے روزوں کی قضا ہو، اس پر یہ حدیث صادق نہیں آتی کہ اس نے رمضان کے روزے رکھے۔ [1] عشرہ ذو الحج اور یومِ عرفہ کے روزے: ایسے ہی ماہِ ذو الحج کے ابتدائی دس دنوں کے روزوں کا ثبوت بھی کتبِ حدیث میں سے سنن ابو داود، نسائی اور مسند احمد میں مذکور ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحج کے پہلے نودنوں کے روزے رکھا کرتے تھے۔‘‘[2] خاص یومِ عرفہ (نو ذو الحج) کے روزے کی تو بہت ہی فضیلت ہے چنانچہ مسلم شریف میںارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’عرفہ(۹/ ذو الحج) کا روزہ، مجھے اللہ سے امید ہے کہ دوسالوں کے گناہوں کو مٹادیتا ہے، ایک سابقہ سال اور ایک آیندہ سال۔‘‘[3] لیکن یاد رہے کہ اس یومِ عرفہ کا روزہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو حج نہ کررہے ہوں، عرفات میں موجود حاجیوں کو اس دن روزہ رکھنا منع ہے، جس پر تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے اور
Flag Counter