Maktaba Wahhabi

555 - 611
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف چونکہ فرض نہیں، اس لیے عورت کو اپنے شوہر سے اجازت ومشورہ کرلینا چاہیے۔[1] صحیح بخاری و صحیح مسلم اورسننِ اربعہ میں مذکور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشقت کے باوجود ہمیشہ مسجد ہی میں اعتکاف فرمایا اور قرآنِ کریم کے الفاظ {وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ} [البقرہ: ۱۸۷] سے بھی یہی پتا چلتا ہے، لہٰذا امام مالک، احمد اور شافعی رحمہم اللہ وغیرہ جمہور ائمہ و اہلِ علم کے نزدیک اعتکاف کا مسجد میں ہونا شرط ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ اگر گھروں میں اعتکاف جائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتg ضرور گھروں ہی میں اعتکاف کرتیں۔ شبینہ: ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ’’شبینہ‘‘ کے نام سے جو ایک ہی رات میں تلاوتِ قرآنِ پاک کا رواج ہے اور لوگ کثرتِ ثواب کی خاطر اس میں کثرت سے شرکت کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کرنا چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’جس نے قرآن کو تین دن رات سے کم میں پڑھا، وہ اس کو سمجھا نہیں۔‘‘[2] صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک رات میں قرآن ختم کرنے کی اجازت مانگنے والے کو کہا کہ مجھے تو ایک رات میںقرآن ختم کرنے سے صرف ایک سورت ختم کرنا زیادہ محبوب ہے۔[3] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’مجھے علم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مکمل قرآن ایک رات میں پڑھا ہویا طلوعِ فجر تک ساری رات قیام فرمایا ہو۔‘‘[4] گویا مروّجہ شبینہ ناجائز ہے۔
Flag Counter