Maktaba Wahhabi

107 - 611
4. ’’تقدیرِ حولی‘‘: چوتھی تقدیر ’’تقدیرِ حولی‘‘ کہلاتی ہے، یہ لیلۃ القدر میں ہوتی ہے۔ ’’تقدیرِ حولی‘‘ جس کی دلیل سورۃ الدخان (آیت: ۴، ۵) میں یہ ارشادِ ربانی ہے: { فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ . اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ} ’’ لیلۃ القدر میں ہر حکمت والے معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے، یہ ہمارا فیصلہ ہے بے شک ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔‘‘ 5. ’’تقدیرِ یومی‘‘: پانچویں تقدیر ’’تقدیرِ یومی‘‘ کہلاتی ہے، اس کا مطلب ہے ہر تقدیر کو اس کے وقت پر جاری و نافذ کرنا۔ ’’تقدیرِ یومی ‘ ‘ کی دلیل سورۃ الرحمن (آیت: ۲۹) میں وارد یہ ارشاد ربانی ہے: { کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ } ’’ہر دن اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے۔‘‘ مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ایک لوحِ محفوظ بھی ہے جو سفید موتی سے بنا ہوا ہے، اس کی جلدیں لال یا قوت کی ہیں، اس کا قلم وکتاب دونوں نور کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر دن اسے تین سو ساٹھ مرتبہ دیکھتا ہے اورہر نظر میں پیدا کرتا ہے، رزق عطا کرتا ہے، اسی چیز کو قرآن میں { کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ } کہا گیا ہے۔‘‘[1] لہٰذا یہی وہ تمام تقدیریں ہیں جہیں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ میں لکھنے کا حکم دیا تھا اور یہ سب کے سب کام اللہ تعالیٰ کے علم سے صادر ہو تے ہیں جو اس کی صفت ہے۔ سعادت وشقاوت پہلے ہی تقدیر میں لکھی جاچکی ہے: تمام آسمانی کتا بیں اور احادیثِ نبویہ اس امر پر متفق ہیں کہ پہلے ہی تقدیر کا لکھا جانا عمل کو مانع ہے نہ اس پر ہاتھ دھر ے بیٹھ جا نے کا موجب ہے، بلکہ عمل و محنت، جدوجہد اور عملِ صالح کی رغبت و حرص کا موجب ہے، یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر لکھے جا نے، اس کے نا فذ
Flag Counter