Maktaba Wahhabi

308 - 611
کی بات ہے کہ جو لوگ آج خود کو اہلِ سنت کہتے ہیں، وہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو قابلِ عمل نہیں سمجھتے۔ معلوم نہیں روزِ محشر کس منہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جائیں گے اور کس منہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حقدار بن سکیں گے۔۔۔؟ مزاروں پر عرس اور میلاد دراصل دورِ جاہلیت کی رسم ہے جسے شیطان اور اس کے چیلوں نے پھر سے مسلمانوں کے درمیان پھیلادیا ہے۔ برصغیر، ایران و عراق اور ترکی و مصر وغیرہ میں ان مزارات کی صورت میں اپنے اڈے قائم کر دیے ہیں۔ آج بندگانِ الٰہی اپنے الٰہ حقیقی کی عبادت سے بے خبر شیطان کی راہوں پر چلتے ہوئے قبروں کی پوجا کرتے، ان پر سجدے کرتے، نذر و نیاز کرتے، شفا اور اولاد یابی یا فتح پانے کی فریادیں کرتے اور اپنی ہر قسم کی حاجتیں مانگنے میں کھو کر رہ گئے ہیں، انھیں اللہ یاد آتا ہے اور نہ اللہ کا گھر۔ نماز چھوٹ سکتی ہے لیکن جمعرات کو مزار پر حاضری نہیں چھوٹ سکتی، کیونکہ یہی ان کے لیے بندہ نواز و مشکل کشا ہے اور ان کا حاجت روا سب یہی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے ڈرنا چاہیے اور انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر غور کرنا چاہیے جس میں ہے کہ رحلت سے صرف پانچ دن قبل، بدھ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے کچھ افاقہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب طبیعت ذرا ہلکی محسوس کی تو مسجد میں تشریف لائے اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے فرمایا: ’’تم سے پہلے ایک قوم گزری ہے جو انبیا اور نیک لوگوں کی قبروں پر سجدے کرتی تھی، تم ایسا نہ کرنا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ’’یہودیوں اور نصرانیوں پر اللہ کی لعنت ہو، جنھوں نے انبیا ( علیہم السلام ) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔‘‘[1] اور ارشاد فرمایا: ’’میرے بعد میری قبر کو ایسا نہ بنادینا کہ اس کی پرستش ہوا کرے۔‘‘[2] اور یہ بھی فرمایا:
Flag Counter