Maktaba Wahhabi

134 - 611
کی جاتی ہے، ان سے کفر کرنا۔ اس طرح معنی کے بغیر لاالٰہ الا اللہ کے الفاظ کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کا کہنا بھی ضروری ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کہنا جنت میں داخل ہونے اور جہنم کی آگ سے نجات پا نے کا سبب ہے، لیکن کوئی سبب اُسی وقت کار آمد و مفید ہو تا ہے جب اس کی شرائط بھی پائی جائیں اور اس کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹیں موجود نہ ہوں۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ سے کہا گیا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’جس نے لاالٰہ الا اللہ کہا جنت میں داخل ہوگیا؟‘‘ فرمانے لگے:’’جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور اس کے حقوق وفرائض کو ادا کیا جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘حضرت وہب بن منبہ نے اس شخص کو جس نے آپ سے سوال کیا کہ کیا لاالٰہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں؟ جواب دیتے ہوئے کہا:کیوں نہیں، لیکن ہر کنجی کے دندانے ہوتے ہیں، اگر تو ایسی کنجی لائے گا جس کے دندانے ہوں تو وہ تیرے لیے تالا کھول دے گی ورنہ نہ کھول سکے گی، لہٰذا کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ صرف لا الٰہ الا اللہ کہنا جنت میں جانے کے لیے کافی ہے، خواہ اس کا کہنے والا مُردوں سے دعائیں کرتا ہو، مشکلات میں ان سے فریاد کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کے ماسوا جن کی پوجا کی جاتی ہے، ان سے کفر بھی کرنے والا نہ ہو! یہ تو کھلا ہوا مغالطہ ہے۔ چوتھا شبہہ: ایک غلط خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ جب تک لوگ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے رہیں گے، تب تک امتِ محمد یہ میں شرک داخل نہیں ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اولیا و صالحین کی قبروں کے پاس جو کچھ کیا جاتا ہے، کیا وہ شرک نہیں ہے؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اس امت میں یہود و نصاریٰ کے مشابہ اعمال پائے جائیں گے۔ ان کے اعمال میں سے ایک عمل یہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر اپنے علما اور راہبوں کو رب بنایا تھا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ہر ہر بات میں پیروی کر وگے، اگر وہ لوگ کسی سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔‘‘ صحابہ علیہم السلام نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہود و نصاریٰ (مراد ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ مراد نہیں تو اور کون مراد ہے؟‘‘[1]
Flag Counter