Maktaba Wahhabi

159 - 611
ظاہر بات ہے یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک کا اس کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ شرک تو یہ ہے کہ کسی ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کی لحاظ سے مدد نہ کر سکتا ہو، جیسا کہ کسی فوت شدہ شخص کو مدد کے لیے پکارنا، اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اور اسی کو نافع اور نقصان دہ باور کرنا، اسی طرح اسے دور اور نزدیک سے ہر کسی کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا، ایسے ہی مافوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا شرک ہے، جو توحیدِ الوہیت میں بد قسمتی سے محبتِ اولیا کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ بد اعتقادی اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب بعض ما ہرین ولیوں اور مزاروں کے اختیارات اور امتیازات بانٹ دیتے ہیں، مثلا شادی سے مایوس عورتوںکی شادی کرانے کی خاطر فلاں خاتون کے آستا نے کا رخ کیا جائے، اگر بے روز گاری ختم کرنا ہو تو فلاں ولی کے مزار کا قصد کیا جائے۔ پوری پلا ننگ اور محکم سازش جس کے جال میں صرف عوام اور جاہل طبقہ ہی نہیں پھنسا، بلکہ تکلیف کی بات تو یہ ہے کہ شہرت یافتہ اور بلند پایہ یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم طلبا اور طالبات پر بھی اس کا گہرا اثر ہے، اس کامعنی یہ ہے کہ خر افات ایسے لوگوں کے دلوں میں سرایت کر جاتی ہیں جن کو ان بد ترین اور خطرناک مشرکانہ افعال سے دور رکھنے والے صحیح عقیدے کی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور یہ وہی لوگ ہیں جو قرآنِ کریم کی تعلیم سے دور ہیں۔ ان لوگوں نے قرآنِ کریم کی اس آیت کو پڑھا ہی نہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شیطان نے کہا: { ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ} [الأنعام: ۱۷] ’’پھر اُن کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے آئوں گا اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے اور تو اکثر آدمیوں کو شکر گزار (موحد) نہ پائے گا۔‘‘ خلاصہ کلام یہ کہ جو شخص اللہ پر پورے اعتماد و یقین سے ایمان رکھتا ہے، اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا مالک اور پالنہار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ کسی وسیلے کا محتاج نہیں، یقینا ایسا شخص اپنی ایمانی قوت اور ٹھوس عقیدے کے سائے میں زندگی بسر کرے گا، خرابیاں
Flag Counter