Maktaba Wahhabi

167 - 611
’’ اور ہم نے بڑھ کر ان کے تمام اعمال کو برباد کر دیا، (کیونکہ ان کے اعمال اخلاص اور متابعت سے خالی ہوں گے)۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یہ معاملہ روزِ قیامت پیش آئے گا، جبکہ اللہ رب العزت بندوں کے خیر و شر کا امتحان لے گا، چنانچہ اللہ مشرکوں کو باخبر کر رہا ہے کہ وہ جن اعمال کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں آخرت میں انھیں حاصل نہ کر سکیں گے، کیونکہ ان میں اعمال کی قبولیت و صحت کے شرائط، اخلاص یا شریعتِ الٰہیہ کی متابعت مفقود ہوں گے، چنانچہ ہر وہ عمل جو اخلاص اور شرعی موافقت سے خالی ہوگا، باطل ہوگا۔‘‘[1] اللہ رب العزت ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے، کیونکہ آج یہ فتنہ مسلمانوں کے اندر عام ہوچکا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ریا کاری کے فتنے کو فتنۂ دجال سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ لیکن بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ بڑے بڑے دین دار لوگ اس ریا کاری کے فتنے میں مبتلا ہیں، بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس فتنے سے محفوظ ہیں۔ اب ریا کاری کی کچھ نشان دہی بھی آپ کے سامنے کردیں تاکہ اس فتنے سے آپ محفوظ رہیں۔ مثلاً کچھ لوگ ایسے ہیں جب وہ کوئی نیک عمل کرلیں تو ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے اس عمل کی خبر لوگوں کو ہوجائے، ہمیں شہرت حاصل ہو اور لوگ ہماری تعریف کریں کہ یہ کتنا عبادت گزار ہے، اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جب لوگوں کی موجودگی میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو اپنی آواز کو بڑا خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگ کہیں کہ کیا خوب آواز ہے! اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب وہ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں تو اپنے الفاظ کو بڑا بنا کر سنوار ادا کرتے ہیں تاکہ سننے والے یہ کہیں کہ واہ! کیا خوب اندازِ بیاں ہے! اسی طرح کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو بازاروں، مجلسوں اور پارٹیوں میں اپنے ہاتھوں میں تسبیحیں لیے ہوتے ہیں، یہ بھی ریا کاری کے نمونوں میں سے ہے، اس لیے ان کاموں سے اجتناب کریں۔ مختصر بات یہ ہے کہ ریاکاری کے لیے کیا ہوا کوئی بھی عمل جب اس سے اللہ تعالیٰ کی
Flag Counter