Maktaba Wahhabi

204 - 611
’’اور اگر ان لوگوں نے بھی کہیں شرک کیا ہوتا تو ان سب کے تمام عمل برباد ہوجاتے۔‘‘ اندازہ کریں کہ جس گناہ سے باز رہنے کے لیے انبیاے کرام اور امام الانبیا ۔صلوات اﷲ وسلامہ علیہم أجمعین۔ کو اس قسم کا خطاب کیا گیا ہو۔ اگرکوئی امتی اس گناہ کا مرتکب ہو جائے تو اس کا کیا حشر ہوگا؟ جد الانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذکر کرتے ہوئے سورت حج (آیت: ۲۶) میں فرمایا: { وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا} ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ)کی جگہ تجویز کی تھی، (تو انھیں ہدایت کی تھی کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘ قرآنِ کریم میں حضرت لقمان کی وصیتیں معروف ہیں جو انھوںنے اپنے بیٹے کو دورانِ وعظ کی تھیں۔ جب ان کا آخری وقت آگیا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو جو مختلف وصیتیں کیں، جن میں سب سے پہلی وصیت یہی تھی: { یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ} [لقمان: ۱۳] ’’اے میرے بیٹے! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ اب آپ اندازہ کریں، حضرت لقمان اپنے بیٹے کو کیا کہہ رہے ہیں کہ شرک بہت بڑا گناہ ہے اور اگر کوئی عام آدمی یہی گناہ کرے گا تو اسے کیسے معاف کیا جائے گا؟ آج اگر کوئی شخص کسی ملک کے حاکم کے خلاف بغاوت کرے اور اس کے متوازی حکومت قائم کرنا چاہے، یعنی اس کے خلاف حکومت قائم کرنا چاہتا ہو تو حاکم کے لیے وہ شخص انتہائی ناگوار ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ اس باغی کی سزا قتل قرار پاتی ہے۔ اب جسارت دیکھیں اس بندے کی جو ملک الملوک اور شہنشاہِ کائنات کے خلاف بغاوت پر اتر آتا ہے اور اس کی عبادت میں غیر کو متوازی حیثیت دے دیتا ہے تو ایسا شخص غضبِ الٰہی کا مستحق کیوں نہ ہوگا؟ اللہ تعالیٰ انتہائی رؤف و رحیم ہے، اس کی رحمت کا آپ اندازہ کریں کہ جو اس کی عبادت کرتا ہے اور جو نہیں کرتا، دونوں کو رزق، صحت، مال و دولت سے نوازتا ہے اور عفو و غفور ہے۔یعنی جس کو چاہے گا اس کو معاف کردے گا چاہے اس کے گناہ زمین سے لیکر آسمان تک ہی کیوں نہ ہوں،
Flag Counter