Maktaba Wahhabi

366 - 611
گے، انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔‘‘ بخاری شریف ہی میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! جب میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ آیت تلاوت کرتے سنا تو میری ٹانگوں میں سکت نہ رہی، میر ے پاؤں میرا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوگئے اور مجھے یقین آگیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔‘‘[1] الغرض بارہ ربیع الاوّل کو خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا غم سے نڈھال ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اشکبار ہیں۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سراسیمہ و پریشان بلکہ سرگرداں ہیں۔ اہلِ بیت پر مصیبتوں کا پہاڑ آگرا۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن بحرِ غم میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالم ہے کہ مدینے کی گلیوں میں کہرام مچا ہوا تھا، ایک وہ لوگ تھے، جن کی یہ حالت تھی! اور ایک آج کا عاشقِ رسول و فداے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اسی بارہ ربیع الاوّل یا بارہ وفات کو جشن مناتا ہے!! خدارا کچھ تو عقل و فکر سے کام لیں ۔۔۔! یاد رہے کہ امتِ اسلامیہ میں سب سے پہلا اختلاف یہی رونما ہوا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں یا زندہ ہیں اور قرآنِ پاک سے استدلال کرتے ہوئے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے واضح کر دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تسلیم کر لیا تھا۔ اس طرح سب سے پہلے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جس مسئلہ پر اجماع و اتفاق ہوا وہ یہی تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں۔ اس اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کے باوجود اگر کوئی شخص آج یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وفا ت نہیں پائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں تو ایسا شخص گویا قرآن کی آیات کا انکار کرتا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قرآن فہمی بلکہ ان کی عقل و دانش پر بدظنی کرنے کا ارتکاب کرتا ہے۔ الغرض پیر کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کا کام اگلے دن منگل کو شروع ہوا، اس تاخیر کی متعدد وجوہات تھیں۔ مثلاً: ٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس ناگزیر واقعہ پر عدمِ یقین۔ ٭ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا خطاب اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس امرِ حق پر یقین۔
Flag Counter