Maktaba Wahhabi

385 - 611
ایک غسلِ عادت اور دوسرا غسلِ عبادت۔ غسلِ عادت تویہ ہے کہ کوئی شخص محض اپنے جسم کا میل کچیل اور پسینہ زائل کرنے، صفائی و ستھرائی کی خاطر یا گرمی کی شدت کم کرنے کی غرض سے نہائے اور غسل کے مسنون طریقے سے قطع نظر اپنی مرضی سے بدن پر پانی بہالے اور صابن وغیرہ سے غسل کر لے، اسے آپ ’’غسلِ عادت‘‘ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس سے صفائی و ستھرائی اور ٹھنڈ ک تو حاصل ہو جائے گی، مگر وہ اجر و ثواب اور فضیلت حاصل نہیں ہو گی، جو مسنون طریقے سے غسل کرنے پر حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے مسنون طریقے کو ’’غسلِ عبادت‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان دونوں میں باہم کوئی خاص فرق بھی نہیں کیونکہ پہلے سے بھی صفائی وستھرائی اور ٹھنڈ ک حاصل ہوتی ہے اور دوسرے سے بھی۔ پہلے میں بھی سرد یا گرم پانی اور صابن و شیمپو استعمال ہوتا ہے اور دوسرے میں بھی، مگر پہلا عادت اور دوسرا عبادت کیوں ہے؟ اس فرق کی وجہ صرف اتنی ہے کہ جب بھی کوئی شخص غسل کرنے لگے تو اسے ہر شکل میں مسنون طریقے کو اختیار کرنا چاہیے اور اس تصور کے آجانے سے جہاں آپ طبی و دنیاوی فوائد سے بہرہ ورہوں گے، وہیں اس کے دینی و روحانی ثمرات بھی سمیٹیں گے اور اتباعِ سنت کا اجروثواب بھی پائیں گے۔ لہٰذا آئیے دیکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسنون طریقۂ غسل کیا تھا؟ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسلِ جنابت فرماتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو لیتے۔ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر مقامِ استنجا کو دھوتے۔ پھر اُسی طرح وضو فرماتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔ پھر پانی لیتے اور بالوں کی جڑوں میں انگلیاں ڈال کر وہاں پانی پہنچاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسوس فرما لیتے کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ گیا ہے تو پانی کے تین چلو بھر کر اپنے سرپر ڈالتے۔ اس کے بعد باقی سارے جسم پر پانی بہاتے تھے اور اس کے بعد اپنے دونوں پاؤں دھوتے تھے۔‘‘[1] ایک حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میری خالہ اُم المومنین
Flag Counter