Maktaba Wahhabi

421 - 611
اس حکمِ الٰہی کی تعمیل صرف اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلافِ عمل لایا گیا کوئی نیک کام قابلِ قبول نہیں، اسی طرح نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اور سکھلائے ہوئے طریقے کے خلاف پڑھی جائے تو قبول نہیں ہوتی۔ نماز پر ہی بس نہیں بلکہ خلافِ پیغمبر چلنے والا کوئی بھی شخص کبھی منزلِ مقصود اور گوہرِ مطلوب کو نہیں پاسکتا، مگر اس کے بر عکس ہماری نمازوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کبھی یہ زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا طریقہ بتایا ہے، تاکہ ہم وہ سیکھیں اور اسی طریقے سے پڑھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے متعلقہ ارشادات کا خود مطالعہ کر کے اپنی نمازوں کا ان سے موازنہ کریں۔ بلکہ ہمارا سارے کا سارا انحصار اپنے ماں باپ اور پھوپھی دادی کی نمازوں کی نقل اتارنے میں ہوتا ہے۔ جس طرح وہ نماز پڑھتے ہیں یا انھیں پڑھتے ہوئے دیکھا، ویسے ہی ہم بھی مشین کے سے انداز کے ساتھ چند حرکات و سکنات اور کچھ قراء ت و تلاوت اور ذکر و دُعا کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اقامت الصلوٰۃ یا اداے نماز کا حق ادا کردیا ہے۔ آپ خودہی بتائیں کہ اس نماز کو کیا نام دیا جائے؟ نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا نمازِ آبائی؟ اب آپ ہی بتائیں کہ مسلمانوں کی نماز کیا واقعی ایسی ہوتی ہے؟ ساری نماز ہی بے چین ہوتی ہے، رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ ہی نہیں بلکہ ہم نے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز کا حسین سراپا ہی بگاڑ کر رکھا ہوا ہے۔ ایسے ہی دلخراش مناظر کو دیکھ دیکھ کر علامہ اقبال بے ساختہ کہہ اٹھے تھے: تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جب ہم نماز ادا کریں تو وہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نماز کے وقت رکوع اور سجود کا خیال رکھیںکیونکہ جو شخص رکوع اور سجود اطمینان کے ساتھ نہیں کرتا، اس کی کوئی نماز نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس بات سے منع فرمایا کہ میں نماز میں مرغ کی طرح ٹھونگے ماروں۔‘‘[1]
Flag Counter