Maktaba Wahhabi

450 - 611
نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے۔ کیا مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں اذان سُنائی دیتی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا: ’’تب نماز باجماعت میں ضرور پہنچا کرو۔‘‘[1] ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ وَ لَمْ یَأْتِ فَلَا صَلَوٰۃَ لَہٗ اِلَّا مِنْ عُذْرٍ )) [2] ’’جس آدمی نے اذان سنی اور اس کے باوجود نماز کے لیے نہیں پہنچا، اس کی نماز قابلِ قبول نہیں، الا یہ کہ اس کے پاس عذر ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ عذر سے کیا مراد ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جان یا مال کا خطرہ یا بیماری۔‘‘ قرآنِ کریم کی مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا سب سے اہم فرض ہے، جو کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے ثواب کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’باجماعت نماز ادا کرنے میں تنہا نماز ادا کرنے کے مقابلے میںستائیس درجے زیادہ اجر و ثواب ہے۔‘‘[3] نماز باجماعت ادا کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی اکثریت محض سُستی اور کوتاہی کی وجہ سے نماز باجماعت کا اہتمام نہیں کرتی جو کھلّم کھلا گناہ ہے اور اس کا انجام بھی بہت خطرناک ہے۔ اتنے اہم حکمِ شریعت پر کسی مسلمان کو سُستی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں نمازِ باجماعت کا حکم دیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مزید وضاحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کثرت سے نماز کا تذکرہ قرآنِ کریم میں فرمایا ہے، اس کے فضائل بیان کیے ہیں، اسے باجماعت اور پابندی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی بتادیا ہے کہ اس معاملے میں سُستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کرنا منافقین کی نشانی ہے۔
Flag Counter