Maktaba Wahhabi

472 - 611
’’ اور اپنے رب کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے، پست آواز سے صبح و شام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا۔‘‘ قرآنِ کریم کی اس آیت سے واضح ہو گیا کہ بلند آواز سے دعا کرنے کی نسبت آہستہ دعا کرنے میں زیادہ عاجزی و انکساری ہوتی ہے اور پھر ریاکاری و دکھلاوے کا بھی خطرہ و خدشہ نہیں ہوتا، جس کے آجانے سے اجر و ثواب نہ صرف کم ہوجاتا بلکہ عمل کا کوئی وزن ہی نہیں رہتا، یعنی ثواب ختم ہوگیا۔ اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمانِ عالی شان صحیح بخاری و مسلم اور سنن ابی داود میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، کچھ آدمی بلند آواز سے تکبیریں کہہ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو، تم کسی بہرے غائب کو تو نہیں پکارتے، تم سننے والے دیکھنے والے کو پکارتے ہو اور وہ ہر وقت تمھارے ساتھ ہے اور جس کو تم پکار رہے ہو وہ تو تمھاری سواری کی گردن سے بھی تمھارے زیادہ قریب ہے۔‘‘ 8 سورۃ البقرۃ (آیت: ۱۸۶) میں اس طرح فرمایا ہے: { وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ} ’’ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پو چھیں تو انھیں کہہ دیجیے کہ میں ان کے قریب ہوں۔‘‘ اور آگے فرمایا: { اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ} ’’جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘ اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر میں مفسرینِ کرام نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما تے ہیں: ’’جب کوئی شخص مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار یا دعا کو صرف سنتا ہی نہیں بلکہ شرفِ قبولیت بھی بخشتا ہوں۔‘‘ لہٰذا لوگوں کا یہ کہنا اور سمجھ لینا ٹھیک نہیں کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا کب سنتا اور قبول کرتا
Flag Counter