Maktaba Wahhabi

482 - 611
مسلسل جاری رکھیں، یوں سمجھیں کہ جب تک کھانا اچھی طرح پک کر تیار نہ ہوجائے ماں اپنے بچے کو کھانا نہیں دیتی کیونکہ وہ ماں ہے اور وہ جانتی ہے کون سا وقت بچے کو کھانا دینے کے لیے مناسب و بہتر ہے اور کون سا نہیں۔ لیکن بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے روتا اور ضد کرتا ہے کیونکہ وہ دیر کی مصلحت کو نہیں سمجھتا، ایسے ہی انسان بہت سی دعاؤں کو اپنے لیے بہتر و مفید سمجھ کر مانگتا ہے لیکن ہوسکتا ہے اُس کے لیے وہ نفع آور نہ ہوں بلکہ اس کے لیے وہ سب نقصان کی چیزیں ہوں کیونکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کی دعا قبول کیوں نہیں کی گئی؟ اِسی وجہ سے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعاؤں کو ترک نہیں کرنا چاہیے، صبر سے کام لیں، بے صبری کا دامن چھوڑ دیں اور جو بھی دعا کریں آخر میں آمین ضرور کہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہا کرتے تھے۔[1] اگر کسی شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو اور اب وہ توبہ کرنا چاہتا ہے، تو وہ سب سے پہلے اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑا ہوکر دو رکعت نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھنا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: (( یَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِيْ وَرَجَوْتَنِيْ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ وَلَا أُبَالِيْ، یَا ابْنَ آدَمَ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَائِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَکَ، یَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّکَ لَوْ أَتَیْتَنِيْ بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِيْ لَا تُشْرِکُ بِيْ شَیْئًا لَأَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً )) [2] ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! جب تم نے مجھے پکارا اور اچھی امیدیں وابستہ رکھیں تو تیرے اعمال خواہ کیسے ہی ہوں، میں تجھے معاف کردوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہوگی، تیرے گناہ آسمانوں کے کناروں تک پہنچ جائیں تو بھی میں تجھے معاف کردوں گا، اگر تم نے میرے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہوگا۔‘‘
Flag Counter