Maktaba Wahhabi

50 - 611
{ وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا} ’’تمھارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ اور سورۃ الانعام (آیت: ۱۵۱) میں یہ بھی فرمایا: { قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا} ’’کہہ دیجیے آؤ میں تم کو یہ پڑھ کر سنا ؤں جو تمھارے پروردگار نے تم پر حرام کیا ہے کہ تم کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراو۔‘‘ چونکہ یہ حق تمام حقوق پر افضل ہے اور دین کے تمام احکام کی جڑ اور بنیاد ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکے کی تیرہ سالہ زندگی میں لوگوں کو اسی حق کے قائم کرنے کی دعوت دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کے شریک ہونے کی نفی کرتے رہے۔ قرآنِ کریم کی بیشتر آیات میں اسی حق کو ثابت کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں شبہات کی نفی کی گئی ہے۔ ہر نماز ی، خواہ وہ فرض پڑھے یا نفل، اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ کے ساتھ اس حق کو ادا کرنے کا عہد کرتا ہے: { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} [الفاتحۃ: ۵] ’’ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘ اس عظیم حق کو توحیدِ عبادت یا توحید الوہیت کہا جا تا ہے، یہ توحید انسانی فطرت میں موجود ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث شریف میں ہے: (( کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلٰی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ )) [1] ’’ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( حَقُّ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ أَنْ یَّعْبُدُوْہُ، وَلَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئاً )) [2]
Flag Counter