Maktaba Wahhabi

506 - 611
قرآنِ کریم کا نزول رمضانِ کریم میں ہوا، اس لیے قرآنِ کریم کا رمضان المبارک کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیلِ امین علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور فرمایا کرتے تھے اور صحابہ و تابعین بھی اس ماہ میں کثرت سے قرآنِ کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اس ماہِ مقدس میں زیادہ سے زیادہ قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کریں، کیونکہ کثرتِ تلاوت بھی مستحب ہے، توجہ اور اہتمام کے ساتھ ساتھ سمجھ کر پڑھیں، کیونکہ قرآنِ کریم کو پڑھتے اور سنتے وقت ایک مسلمان پر خوف اور رقت کی کیفیت بھی طاری ہونی چاہیے، یعنی اللہ کے ڈر اور خوف سے دلوں کو نرم ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پڑھنے اور سننے والے دونوں ہی الفاظ کے معانی سے بھی واقف ہوں۔ قرآن کو محض تاریخ و قصص کی کتاب نہ سمجھا جائے بلکہ اسے کتابِ ہدایت سمجھ کر اس طرح پڑھا جائے کہ جہاں اللہ کی رحمت و مغفرت اور اس کی بشارتوں اور نعمتوں کا بیان ہے، وہاں اللہ سے ان کا سوال کیا جائے اور جہاں عذاب و وعید کا تذکرہ ہو، وہاں ان سے اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ ہمارے اسلاف اس طرح غور و تدبر سے قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے تھے کہ ان پر بعض دفعہ ایسی کیفیت اور رقت طاری ہوتی کہ بار بار وہ ان آیتوں کی تلاوت کرتے اور خوب بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑاتے اور اگر سننے والے بھی غور و تدبر سے سنیں تو ان پر بھی یہی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ جب آپ مکے میں جاتے ہیں تو نماز کے وقت آپ نے اندازہ کیا ہوگا جب ائمہ حرم خصوصاً فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ اور فضیلہ الشیخ سعود الشریم حفظہ اللہ وغیرہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو سارا حرم آہوں اور سسکیوں میں ڈوب جاتا ہے اور اما مِ حرم کے خشوع و خضوع سے پُر آنسوؤں میں بھیگی ہوئی آواز رُک رُک کر سنائی دیتی ہے، یہ کیفیت تبھی ہوتی ہے جب ہم قرآن پاک کے ترجمے سے واقف ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح غور و تدبر سے قرآن پڑھتے اور اس سے اثر پذیر اتنا ہوتے کہ جن سورتوں میں قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’مجھے ہود اور اس جیسی سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔‘‘[1]
Flag Counter