Maktaba Wahhabi

571 - 611
پر مامور ہوتے ہیں۔ ان کی اجرت یا تنخواہیں مالِ زکات سے دی جاسکتی ہیں اور وہ ان کے لیے حلال ہے، چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ 7. مؤلفۃ القلوب: ایک تو وہ کافر جو اسلام کی طرف کچھ مائل ہو اور اس کی مدد کرنے سے اس کے مسلمان ہو جانے کی توقع ہو۔ دوسرے وہ نو مسلم افراد جنھیں یہ امداد اسلام پر مضبوط کر دینے کا باعث بن سکتی ہو۔ بہر حال زکات کے مال میں بہت خیر ہے، اس کو خرچ کرنے میں مسلمانوں کے لیے بہت سارے فائدے ہیں، جیسا کہ لوگوں کی ضرورت میں مدد اور ان پر قرض کے بارِگراں کی تخفیف وغیرہ۔ 8. اس کے علاوہ غلاموں اور قیدیوں کی آزادی، مجاہدوں کو معاون چیز کی فراہمی اور مسافروںکی مدد کے ساتھ ساتھ زکات کے آٹھوں مصارف میں بڑا فائدہ ہے۔ اللہ کا اپنے بندوں پر بڑا کرم اور بہت مہربانی ہے کہ اس نے ان کو باہم معاون بنایا، جن میں مال دار آدمی محتاج و مسکین کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ بھی نوازا، اس کے ذریعے وہ بر و تقویٰ کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ نے اُن کو جو مال و دولت دی ان پر احسان کیا ہے، زکات ادا کرنے میں ان کے لیے اللہ کا شکرانہ بھی ہے۔ بلاشبہ اللہ بڑا محسن اور کرم فرما ہے، اس لیے بندہ مومن پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ اللہ کی حمد و تعریف کے ساتھ اس کا شکرانہ ادا کرے، جس نے اس کو زکات لینے والا نہیں، بلکہ دینے والا بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلند ہاتھ پست ہاتھ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔‘‘[1] اس لیے اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو بلند ہاتھ والا بنا دیا۔ آپ خرچ کرتے ہیں، بھلائی کرتے اور اللہ کے بندوں کے ساتھ سخاوت کرتے ہیں۔ پھر زکات میں آپ اور آپ کے مال کی طہارت اور پاکی و صفائی بھی ہے، جیسا کہ سورۃ التوبہ (آیت: ۱۰۳) میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا} ’’آپ اُن کے مال کی زکات وصول کیجیے تاکہ ان کو پاک کیجیے اور اس کے ذریعے ان کے باطن کا تزکیہ کیجیے۔‘‘
Flag Counter