Maktaba Wahhabi

201 - 611
دعوتِ حق قبول کرنے سے انھوں نے منہ پھیر لیا تھا اور پھر ان کا انجام کیا ہوا؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ آمین اگر آج بھی کوئی صدقِ دل سے اپنے اللہ پر کامل ایمان لے آئے تو دنیا کی کوئی چیز اس کو نقصان نہیں دے سکتی، کیونکہ جس نے اللہ کے ساتھ دوستی کر لی اس کے لیے وہ کافی ہوگیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جہاں کہیں ہمیں اپنے عقائد میں کوئی غلطی نظر آئے تو فوراً اس کی اصلاح کرلیں اور توبہ واستغفار کر کے اپنے رب کو راضی کر لیں، کیونکہ وہ بہت زیادہ مہربان، رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’سارے کے سارے مسلمان خطا کار ہیں اور بہتریں خطا کار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘[1] یاد رکھیے! جب گناہ کا احساس پیدا ہوجائے اور آپ یہ محسوس کرنے لگیں کہ ہم سے غلطی سرزد ہوگئی ہے تو سمجھ لیں کہ اب آپ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا دورازہ کھول دیا ہے۔ پھر عجز و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جائیے، کیونکہ وہ ہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔ گناہ کے بعد احساسِ ندامت سے مغلوب ہوکر بارگاہِ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا، بندگانِ الٰہی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی خاص نسل سے محبت یا نفرت نہیں ہے۔ محبت یا نفرت صرف بندے کے اعمال و اخلاق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی قوم یا فرد اچھے عمل کرتا ہے، ایمان اور اس کے تقاضوں کو صحیح طریقے سے ادا کرتا ہے تو وہ اس کا محبوب ہے اور رب تعالیٰ اس کا معاون و مددگار ہے۔ اگر اس کے بر عکس ایمان و عمل کے تقاضوں سے بے خبر کوئی قوم یا فرد ہے تو وہ اللہ کو ناپسندیدہ ہے اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کا مقدّر ہے، یعنی وہ ہر قسم کی ہلاکت سے دوچار ہوگا۔ اسی لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جب بھی ہم قرآنِ کریم کی تلاوت یا مطالعہ کریں تو اس وقت ہم اپنے اخلاق و کردار کا جائزہ لیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں میں مبتلا ہیں جو گذشتہ قوموں کی تباہی کا باعث تھیں!!
Flag Counter