Maktaba Wahhabi

322 - 611
{فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ} نازل ہوئی تو اس میں حکم تھا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو احکامِ الٰہی صاف صاف سنایئے اور مشرکین کی پروا مت کیجیے۔‘‘ لہٰذا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ دعوت و تبلیغ میں مزید سرگرمِ عمل ہو گئے، کبھی تنہا اور کبھی چند جانثاروں کے ہمراہ دار ارقم سے نکل کر لوگوں کو صاف صاف اسلام کی دعوت دیتے اور شرک سے دور رہنے کی تلقین فرماتے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور وہی لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت، صدق اور اعلی کردار کی تعریفیں کیا کر تے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے، بہر حال مخالفت کے ان طوفانوں میں دعوتِ حق کا کام برابر جاری رہا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ، مجنّہ اور ذی المجاز نامی میلوں میں جانکلتے۔ جہاں دور دراز سے لوگ آتے تھے۔ وہاں ان کو توحید و رسالت کی دعوت دیتے تھے۔[1] یہی وہ دَور ہے جس میں کفار نے حضرت عمار بن یاسر اور اوّل شہیدہ فی الاسلام حضرت سمیہ رضی اللہ عنہم کو تکلیفیں پہنچائیں اور انھیں برداشت کرتے دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اے آلِ یاسر! صبر کرو، تمھارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔‘‘[2] بلال و خباب اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کو دل گداز تکلیفیں دیں اور خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے۔ گھر کے سامنے گندگی پھینکی، عفونت پھیلائی، دورانِ نماز و سجدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر اونٹ کی غلاظت بھری اوجڑی ڈالی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) دیوانہ، شاعر، کاہن اور جادو گر کہا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ مگر وہ کیا جانیں کہ ؎ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت تک دین پہنچانے کے لیے جس صبر و تحمل، عفو و درگزر اور شفقت و رحمت کا طرزِ عمل اختیار فرمایا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلو ہے، جس کی رفعتوں اور بلندیوں کا ادراک کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
Flag Counter