Maktaba Wahhabi

360 - 611
پھر ایک رات کی نیم شبی میں جنت البقیع تشریف لے گئے اور آسودگانِ بقیع کے لیے دعا فرمائی۔ علامہ زرقانی نے ’’شرح المواہب‘‘ میں نقل کیا ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے ارشاد فرمایا: ’’مرحباً مسلمانو! اللہ تم کو اپنی رحمت میں رکھے، تمھاری شکستہ دلی کو دور فرمائے، تمھیں رزق دے اور تمھاری مدد فرمائے۔ تمھیں با امن و امان رکھے، میں تمھیں تقوے کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ اس خطبے کے آخر میں فرمایا: ’’سلام تم سب پر اور ان لو گوں پر جو بذریعہ اسلام میری بیعت میں داخل ہوں گے۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ایسے روشن راستے پر چھوڑ کر گئے جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں۔ جو شخص اسے چھوڑے گا اپنی ہلاکت کو خود دعوت دے گا۔ آخری وصیتیں: بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’رفیقِ اعلیٰ‘‘ کی طرف انتقال سے قبل جو آخری چند نصیحتیں فرمائیں، انہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلصَّلٰوۃَ، اَلصَّلٰوۃَ، وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ )) [2] ’’نماز کا خاص خیال رکھنا، نماز کا خاص خیال رکھنا اور ان لوگوں (غلاموں کنیزوں) کا بھی خیال رکھنا جو تمھاری ملکیت میں ہیں۔‘‘ نیز فرمایا: ’’تم سے پہلی قوموں نے اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا، مگر تم ایسا ہر گز نہ کرنا۔‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، کیوں کہ انھوں نے انبیاے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔‘‘
Flag Counter