Maktaba Wahhabi

363 - 611
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے پورے یقین سے کہا ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شہادت تھی۔‘‘[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے اعزاز و اکرام کے ساتھ ساتھ وفاتِ شہادت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہادت کے ساتھ ہی اپنے رفیق اعلیٰ کے پاس پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۲/ ربیع الاول سن۱۱ھ (مطابق ۶/ جون ۶۳۲ء) یوم دوشنبہ [سوموار] کو چاشت کے وقت ہوئی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرِ مبارک تریسٹھ سال تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دل فگار و جگر پاش واقعہ کا اثر اہلِ بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی بڑا گہرا اثر پڑا، جو صرف اس ایک مثال ہی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ امام ابن ہشام (۴/ ۲۲۴) نقل کر تے ہیں کہ حضرتِ فاروق رضی اللہ عنہ (جیسے شیردل اور صاحبِ جلال شخص) کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں، بلکہ سراسیمگی کے عالم میں فرمانے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح چالیس دن کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس گئے ہیں۔ جیسے وہ تورات لینے کے لیے طورِ سینا پر گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آجائیں گے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں، ان کی گردنیں مار دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمے کا اثر دیکھیں کہ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسا مدبر انسان ہوش کھو بیٹھا۔ بخاری شریف میں مذکور ہے کہ اتنے میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا، جبینِ اقدس کو بوسہ دیا، آنسو بہائے اور فرمایا: ’’بِأَبِيْ أَنْتَ وَاُمِّيْ، لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ عَلَیْکَ مَوْتَتَیْنِ، اَمَّا الْمَوْتَۃُ الَّتِیْ کُتِبَتْ عَلَیْکَ فَقَدْ مِتَّھاَ‘‘[3] ’’میرے ماں، باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا، یہی ایک موت تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی ہو ئی تھی اور آگئی ہے۔‘‘
Flag Counter